تحریر : ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی اردو میں تعلیمی نفسیات پر معلوماتی مضامین لکھتے ہوئے جو قلم کار ان دنوں پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں مشہور ہیں وہ جناب فاروق طاہر صاحب متوطن حیدرآباد دکن ہیں جن کے تعلیمی نفسیات پر اردو زبان میں لکھے گئے معلوماتی و اصلاحی مضامین اردو اخبارات و رسائل اور قومی و بین الاقوامی ویب سائٹس پر شائع ہورہے ہیں۔ فاروق طاہر پیشے سے معلم ہیں۔ اور سائنس و آرٹس مضامین میں پوسٹ گرائجویشن کی ڈگریاں رکھنے کے ساتھ ساتھ قانون کی ڈگری بھی رکھتے ہیں۔ اور ان دنوں حیدرآباد سے شائع ہونے والے اردو روزنامہ منصف کے ایڈیشن ”نئی منزلیں نئے قدم” بروز ہفتہ کے علاوہ سہ روزہ دعوت نئی دہلی’ جنگ پاکستان اردو ڈائجسٹ لاہور اور دیگر اخبارات و رسائل میں پابندی سے شائع ہو کر اردو حلقوں میں مقبول ہورہے ہیں۔ تعلیمی نفسیات کے موضوع پر ان کی دو کتابیں موثر تدریس اور المعلم شائع ہوچکی ہیں اور ان کے مضامین کا تیسرا مجموعہ ” طلباء کے تین دشمن” کے نام سے شائع ہوا ہے۔ اس مجموعے کی رسم اجرا تقریب 30ڈسمبر کو سالار جنگ میوزیم سمینار ہا ل حیدر آباد میں منعقد ہوئی۔مولانا آزاد قومی اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد اسلم پرویز نے کتاب کا رسم اجرا انجام دیا۔
تقریب میں پروفیسر وہاب قیصر’ڈاکٹر عابد معز’پروفیسر فاطمہ پروین’ڈاکٹر اسلام الدین مجاہد’خالد قیصری اور اسلم فرشوری نے فاروق طاہر کی مضمون نگاری پر اپنے گراں قدر خیالات کا اظہار کیا۔طلباء کے تین دشمن کتاب میں فاروق طاہر صاحب کے تعلیمی نفسیات پر لکھے گئے مضامین طلبہ کے” تین دشمن’طلبہ خوف کا ہر گز غم نہ کریں’طلبہ کا تنائو پر قابوعظیم کامیابیوں کا سرچشمہ’مایوس نہ ہوں امید کی جلومیں’سستی ایک دلکش دشمن’تعمیر حیات اور قوت فیصلہ’آرائش زندگی میں تنظیم و ترتیب کی اہمیت’تساہل چھوڑئیے اب وقت عمل ہے’طلبہ کامیابی کے لئے سونا اور جاگنا بھی سیکھیں’ذہنی تحدیدات خودی میں ڈوب کے پاجا سراغ زندگی’غصہ ہو اگر قابو تو طاقت ورنہ تذلیل کا ساماں’احساس کمتری کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میںوغیرہ شامل ہیں۔ مضامین کے عنوانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ فاروق طاہر کو تعلیمی نفسیات پر عبور حاصل ہے اور اردو میں انہوں نے اپنے مطالعے کو اسلامی فکر کے ساتھ پیش کیا ہے۔ کتاب کے پیش لفظ میں انہوں نے تعلیمی نفسیات کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے فروبل کا یہ قول نقل کیا ہے کہ” استاد ایک باغبان’ بچہ ایک پودا اور اسکول کی حیثیت ایک باغ کی ہوتی ہے” ۔ موجودہ تعلیمی منظر نامہ صرف معلومات کی فراہمی اور انہیں امتحان کے ذریعے دوبارہ پیشکشی پر کامیابی ہی رہ گیا ہے۔ جب کہ اچھی تعلیم وہی کہلاتی ہے جو انسان کو عمل پر راغب کرے اور انسان کی کردار سازی کے ساتھ سماج کی تعمیر ہو۔
آج تعلیم تجارت ہوگئی ہے اور اس تجارت میں سرمایہ دار طبقہ اپنا سرمایہ لگا کر اس سے دگنا تگنا وصول کرنا چاہتا ہے اس لئے اقدار تعلیم سے دور ہوتے جارہے ہیں اسی کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی تعلیمی نفسیات سے عدم واقفیت یا عدم دلچسپی سے طلباء کے ساتھ غلط برتائو اور تعلیم کے تئیں طلباء کی بے رخی والدین اور سماج کی جانب سے طلباء پر بڑھتے دبائو کے سبب بھی طلباء پر تعلیم کے نام پر نتائو اور کشمکش عام ہے۔ پھر تعلیم کے ساتھ اقدار چلے جائیں تو ایسی تعلیم صرف ڈگریوں کے حصول تک رہ جائے گی اس سے فرد اور سماج کو فائد ہ نہیں ہوگا۔ ان حالات میں اسلامی فکر اور حالات حاضرہ کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے موضوع تعلیم کے مغربی افکار کو اردو میں سنجیدہ اور رواں انداز میں مسلسل پیش کرنے کا اہم فریضہ فاروق طاہر پیش کر رہے ہیں۔ اپنی کتاب کی اشاعت کی غرض بیان کرتے ہوئے کتاب کے پیش لفظ میں فارق طاہر لکھتے ہیں کہ” طلبہ کے تین دشمن کے ذریعے جہاں طلبہ کو متحرک کرنے کی کوشش کی گی ہے وہیں والدین اور اساتذہ کو جدید تعلیمی نفسیات کی روشنی میں تعلیم و تربیت کے زرین اصولوں سے بھی آگاہ کیا گیا ہے۔
اس کتاب کے ذریعے اس بات کو بھی اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ جدید تعلیمی نفسیات کے عنوان پر جو کچھ اچھے اور مثبت نظریات پیش کئے جارہے ہیں وہ سب اسلامی تعلیمات سے اخذ شدہ ہوں۔ بیشک نبی اکرم ۖ کا اسوہ ہر انسان کے لئے ایک کامل نمونہ ہے”۔ڈاکٹر مشتاق احمد آئی پٹیل پروفیسر شعبہ تعلیمات اردو یونیورسٹی ” حرف چند” کے عنوان سے کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ” دنیا کو فتح کرنے کے لئے اپنی ذات کو فتح کرنا بے حد ضروری ہوتا ہے ۔”طلبہ کے تین دشمن” تسخیر ذات کے ذریعے تسخیر کائنات کا ایک بے مثال فارمولہ ہے۔۔ فاروق طاہر کے قلم سے نکلی یہ تحریریں ملت کی تعمیر میں ان شاء اللہ بہت مفید و سود مند ثابت ہوں گی۔قوم وملت کی تعمیر میں سنجیدگی سے مصروف فاروق طاہر جیسے اساتذہ کی موجودگی ملت کی تعمیر اور درخشاں مستقبل کی میری امیدوں کو مزید روشن کردیتی ہیں”۔ڈاکٹر عابد معز مشیر اردو مرکز برائے فروغ علوم اردو یونیورسٹی و نامور مزاح نگار ”حرف ادراک” کے عنوان سے فاروق طاہر کی کتاب’ ‘طلبہ کے تین دشمن” پر تبصرہ کرتے ہوئے رقم طرا ز ہیں کہ” تعلیم و تربیت درس و تدریس اور رہنمائی اور رہبری کے تلخ گوشوں پر فاروق طاہر نے اپنے قلم سے جس طرح روشنی ڈالی ہے اس سے یہ بات مترشح ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں ابھی ایسے باکمال ‘اعلیٰ صلاحیتوں کے افراد موجود ہیں جو ہر گھڑی طلبہ کے بہتر مستقبل کے لئے فکر مند رہتے ہیں”۔
‘طلبہ کے تین دشمن” کتاب کا پہلا مضمون بھی اسی عنوان پر ہے۔ فارق طاہر نے اس کتاب کی تزئین خود کی ہے اور ہر مضمون کے پہلے صفحہ پر موضوع کی مناسبت سے قرآنی آیت کا حوالہ ‘ حدیث یا دعا پیش کی ہے۔ چنانچہ اس مضمون کی مناسبت سے فاروق طاہر نے خطبہ نکاح کے دوران پڑھی جانے والی حدیث کا ایک جملہ” ہم اپنے نفس کی شرارتوں اور اپنے اعمال کی برائیوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں” پیش کیا ہے۔ تعلیم ہو یا زندگی کا کوئی بھی عمل اگر ہماری نظر اپنے اسلامی سرمائے پر نہ ہو تو ہم حقیقی کامیابی حاصل نہیں کرسکتے ۔ فارق طاہر صاحب نے یہ جدت کی کہ تعلیمی نفسیات جیسے صریح سائنسی مضمون کو انہوں نے اسلامی فکر کے پس منظر میں سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے اور اس میں وہ بڑی حد تک کامیاب ہیں۔ طلبہ کے تین دشمن کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے فطری جبلتی دشمن جیسے خوف’تنائو’احساس مایوسی و محرومی وغیرہ۔ حاصل کردہ دشمن جیسے غصہ ‘ذہنی تحدیدات اور احساس کمتری اور دلکش و خوش نما دشمن جیسے سستی’ کاہلی اور تنظیم و ترتیب کے فقدان کو پیش کیا ہے۔ان مسائل کی نشاندہی کے بعد فارق طاہر ماہرین تعلیم کے تجربات ہماری تہذیبی زندگی کے واقعات اور قرآن و حدیث کی ہدایات سے ان مسائل کا حل پیش کرتے ہیں۔
طلباء کو وقت کی قدر کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے اس مضمون میں فارق طاہر لکھتے ہیں کہ” طلبہ ایام طالب علمی میں صرف حصول علم کو مد نظر رکھیں فضول اور لایعنی افعال سے اجتناب کریں اگر یہ زمانہ خرافات کی نظر ہوگیا تب دنیا کی کوئی بھی طاقت ان کو ذلت و رسوائی اور ناکامی سے نہیں بچا سکتی۔ حصول علم میں وقتی آرام و آسائش لطف و سرور بہت بڑی رکاوٹ ہوتے ہیں اگر طلبہ ان رکاوٹوں سے خود کو بچانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تب ان کو مستقبل کی تمام خوشیاںاور راحتیں میسر آتی ہیں۔۔۔ طلبہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ وہ سنت اللہ اور قانون فطرت کا احترام کریں اور ہر پل اپنے آپ کو اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر گامزن رکھیں۔اگلے مضمون میں طلبہ میں خوف آنے کی وجوہات بیان کرنے کے بعد اسے دور کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے فاروق طاہر لکھتے ہیں کہ” طلبہ صرف ہاں کہنے کی عادت نہ ڈالیں بلکہ نہ کہنا بھی سیکھ لیں”۔ انہوں نے لکھا کہ اپنی کمزوریوں کو پہچاننا اور چھوٹی چھوٹی کمزوریوں سے بڑی کمزوریوں تک قابو پانے کا مسلسل عمل کرنا ضروری ہے۔تنائو پر قابو پانے پر مبنی مضمون کے ذیل میں انہوں نے قرآن کی آیت ” الا بذکر اللہ تطمین القلوب” ( یاد رکھو اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے”)۔ کی نشاندہی کرتے ہوئے مضمون کی تفصیلات پیش کی ہیں۔ تنائو عہد حاضر کی بڑی روحانی بیماری ہے جس کا بد ترین انجام خودکشی کی لعنت ہے۔ انسان معاشرے کے بڑھتے تقاضوں کو اپنے آپ پر ذبردستی لاگو کرتے ہوئے ان تقاضوں کی عدم تکمیل پر تنائو کا شکار ہوجاتا ہے۔ انسان جب یہ سوچنے لگے کہ حالات تو آتے ہیں لیکن ان حالات سے نکلنے کے لئے جہد مسلسل کے ساتھ اللہ پر بھروسہ رکھنا ضروری ہے تب تنائو سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔ چنانچہ فاروق طاہر طلبہ کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اپنی تعلیم اور پڑھائی پر سنجیدگی سے توجہ مرکوز کریں اور نتائج کو اللہ کے سپرد کردیں۔ طلبہ کا ایمان و یقین اس وقت اکسیر کا کام کرتا ہے۔
مایوس نہ ہوں امید کی جلو میں مضمون کے تحت قرآن کی آیت ” لا تقنطو من رحمت اللہ” ( اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں) کو پیش کیا گیا ہے۔ مایوسی کی علامات بیان کرتے ہوئے فاروق طاہر نے لکھا کہ طلبہ کسی بھی ناگہانی اور خراب صورتحال کے لئے خود کو مورد الزام گردانتے ہیں۔ اس کے علاوہ جسمانی شکایات کے اوہام جیسے مسلسل درد’پیٹ کے درد کی شکایت طلبہ اور بڑوں میں احساس نا امیدی اور مایوسی پیدا کرتی ہے۔ محبت و شفقت سے محرومی’امتحان میں ناکامی اعلی نشانات رینک اور گریڈ کے حصول میں ناکامی طلبہ کو ذہنی اذیت سے دوچار کرنے کے ساتھ ناامیدی و مایوسی کا بھی شکار کردیتی ہے۔ مایوسی کے علاج کے لئے فاروق طاہر طلبہ کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ مثبت سوچ کو اپنائیں ۔ اساتذہ سے اپنے مسائل پر گفتگو کریں ۔ ہمیشہ مصروف رہنے کی کوشش کریں۔مقام کی تبدیلی’سیر و سیاحت’کھیل کود اورہلکی ورزش بھی مایوسی کو دور کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ فاروق طاہر نے مختلف مثالوں اور واقعات کے مدد سے مایوسی کی کیفیات اور اس سے بچنے کی تدابیر بیان کی ہیں۔سستی اور کاہلی سے بچنے کے ضمن میں فاروق طاہر نے پھلوں کے استعمال اور گھر پر بنی سادہ اور تغذیہ بخش غذائوں کے استعمال اور حرکت و عمل کی ترغیب دی ہے۔تعمیر حیات اور قوت فیصلہ مضمون میں فارق طاہر نے نوجوانوں میں فیصلہ سازی کے فقدان اور خود کے فیصلے لینے کی صلاحیت کو پروان چڑھانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
حالات و تجربات کا مشاہدہ اور اساتذہ اور بزرگوں سے مشورے کے ساتھ ساتھ انہوں نے نوجوانوں کو ترغیب دی کہ وہ مثبت سوچ کے ساتھ فیصلے کریں اور ان پر جہد مسلسل کے ساتھ کام کریں تو نتائج اچھے حاصل ہوں گے اگر ناکامی ہو بھی تو اس سے تجربات حاصل کریں۔کتاب کے دیگر مضامین بھی طلباء کے مسائل اور ان کے حل پر مرکوز ہیں۔ کتاب چونکہ طلباء کے مسائل سے متعلق ہے اس لئے اس میں والدین اور اساتذہ کا تذکرہ ضمنی طور پر کیا گیا ہے۔ فارق طاہر نے اپنے موضوع کو بیان کرنے کے لئے اشکال اور جدول بھی پیش کئے ہیں ۔ ان مضامین کی تیاری کے لئے انہوں نے مطالعہ قرآن کو اہمیت دی اور دیگر اسلامی کتابوں ‘ مختلف تفاسیر قرآن سیرت النبی ۖ کی کتابوں اور تعلیمی نفسیات پر اردو اور انگریزی کتابوں سے استفادہ کیا ہے۔ جس سے ان کے گہرے مطالعے کا اندازہ ہوتا ہے۔ کتاب کے پچھلے ٹائٹل پر نذیر الحسن کراچی کا تعارفی مضمون کتاب کی زینت میں اضافہ کرتا ہے۔
فاروق طاہر کی یہ کتاب طلباء کے لئے انتہائی مفید ہے۔ ایک ایسے دور میں جب کہ طلباء اردو زبان سے نا بلدہیں اور اپنی نصابی کتابوں کو ہی مکمل طور پر نہیں پڑھ رہے ہیں فاروق طاہر کی اس کتاب سے طلبہ کے استفادے کے لئے ضروری ہے کہ تمام اساتذہ اس کتاب کے مضامین کو کمرہ جماعت میں با آواز بلند پڑھوائیں اور اس کے مشمولات پر طلبہ کے اشکالات اور رائے کو حاصل کریں۔ فاروق طاہر صاحب سے میں نے کہا تھا کہ اخبار کی عمر ایک دن ہوتی ہے اور بہت سے گھروں میں اخبار نہیں آتے اس لئے عصری تقاضوں کے مد نظر ان مضامین کو انٹرنیٹ کے بلاگ پر پیش کیا جائے اور ممکن ہو تو ان مضامین کے آڈیو یوٹیوب پر بھی پیش کریں تاکہ طلبہ کہیں بھی اپنے اسمارٹ فون پر ان مضامین کے اندر پوشیدہ باتوں کو سن کر سمجھتے ہوئے اپنے زندگی میںعمل کرسکیں۔ تمام اساتذہ برادری کی ذمہ داری ہے کہ اس کتاب کو اور فاروق طاہر کے مضامین کو طلبہ تک پہونچائیں۔ تعلیمی اداروں میں ہونے والے انعامی مقابلوں میں اس طرح کی کتابیں طلبہ میں انعام کے طور پر دی جائیں۔ اور طلبہ سے بھی ان موضوعات پر مضامین لکھنے کی ترغیب دلائی جائے۔ تعلیمی نفسیات پر آسان اردو میں کتاب ‘طلبہ کے تین دشمن” کی اشاعت اور مضامین کی اشاعت پر مصنف فاروق طاہر کو مبارک باد پیش ہے۔ کتاب کی اشاعت ہدی پبلیکیشنز حیدرآباد نے انجام دی ہے۔ اغلاط سے پاک کتابت’عمدہ طباعت ‘آئی ایس بی این نمبر کے ساتھ شائع ہونے والی اس اہم کتاب کی قیمت 120/.روپئے رکھی گئی ہے جو مصنف کے فون نمبر9700122826’ہدی بک ڈپو پرانی حویلی اور دیگر مقامات سے حاصل کی جا سکتی ہے۔