اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان میں جمہوری آزادیوں کے لیے سرگرم کارکنوں نے حکومتی اقدام کی مذمت کی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حکومت پاکستان پر زور دیا ہے کہ طلبہ کے پرامن احتجاج کے خلاف کریک ڈاؤن بند کیا جائے۔
ایف آئی آر میں سینکڑوں لوگوں سمیت مقتول طالب علم مشال خان کے والد اقبال لالا، پروفیسر عمار جان، فاروق طارق، محمد شبیر اور کامل خان کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔ ان پانچ افراد پر ‘بغاوت‘ کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جنوبی ایشیا کے لیے اہلکار رابعہ محمود نے ایک بیان میں حکومت پاکستان پر زور دیا کہ طلبہ کے پرامن احتجاج کے خلاف کریک ڈاؤن بند کیا جائے۔ سوشل میڈیا پر پاکستان میں جمہوری آزادیوں کے لیے سرگرم نمایاں شخصیات نے بھی حکومتی اقدام کی سخت مذمت کی۔
قبل ازیں طلبہ حقوق مارچ کے ایک دن بعد ہفتے کو پنجاب یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ عالمگیر وزیر لاپتہ ہو گئے تھے۔ انہوں نے جمعے کو مال روڈ پر احتجاج میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور مظاہرین سے خطاب کیا تھا۔
ان کے ساتھیوں کے مطابق عالمگیر کا ہفتے دوپہر تین بجے کے بعد سے کسی سے کوئی رابطہ نہیں۔ اطلاعات ہیں کہ انہیں سادہ کپڑوں میں ملبوس کچھ نامعلوم افراد گاڑی میں ڈال کر لے گئے۔ بعض اطلاعات کے مطابق ان کے خلاف بھی قانونی کارروائی کی جا رہی ہے۔
عالمگیر وزیر رکن قومی اسمبلی علی وزیر کے کزن ہیں اور پشتون تحفظ موومنٹ سے وابستہ رہے ہیں۔
عالمگیر وزیر نے طلبہ مارچ کے موقع پر اپنے خطاب میں پاکستان کی فوجی قیادت کی پالیسوں پر تنقید کی تھی۔ انہوں نے کہا تھاکہ، ”ہم ان سے کہہ رہے تھے کہ ہمیں تعلیم دو، انصاف دو اور روڈ دو، لیکن یہ ہمیں بندوق دے رہے تھے۔‘‘
انہوں نے کہا، ”ہم ان سے کہہ رہے تھے کہ ہمیں دہشت گرد نہ بناؤ، غنڈہ گرد نہ بناؤ لیکن انہوں نے ہمارے لوگوں کو طالبان اور دہشت گرد بنایا۔‘‘