اندھے جذبوں اور ناتجربہ کاری والی جوانیاں بڑی خطرناک منزل پہ ہوتی ہیں۔ چاہے اُن کا تعلق ماڈرن تدریسی اداروں سے ہو یا مذہبی مدارس سے۔یہ جوشیلے بم ہوتے ہیں۔۔۔انہیں کسی عہدے ،کسی وعدے سے سیاسی یا مذ ہبی مفاد کے لیئے استعمال کیا جانا آسان ہوتا ہے۔ریاست اور تدریسی اداروں کی اجتماعی ذمہ داری بنتی ہے کہ وئہ۔ قوم کے مستقبل کو بچا کر رکھے۔اُن کی تربیت کی جائے۔ تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ انہیں سماجی ہنر مند بنایا جائے اور قومی سیاست میں قائدانہ کردار ادا کرنے کے لیئے تیار کیا جائے ۔انہیں شعور دیا جائے کہ وئہ سیاسی جھنڈے اُٹھانے۔نعرے لگانے۔سڑکیں بلاک کرنے اورقومی املاک کوتباہ کرنے کا ٹول نہ بنیں ۔سیاسی پارٹیوں کے لیئے اقدار کی سیڑھی نہ بنیں۔طلبا ء تنظیموں میں سیاسی ونگ کی تکلیف دہ تاریخ ہمارے سامنے ہے۔
نوجوان عمر کے اُس مرحلے پر ہوتے ہیں ۔جہاںوئہ ہر کام سمجھنا۔سیکھنا اور کرنا چاہتے ہیں۔انہیں عملی طور پر مصروف رکھنے کی ضرورت ہوتی ہی۔ہر حکومت طلباء یونین کے جِن کو بوتل میں بند رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔اور ہر اپوزیشن سڑکوں کو طلباء کے خون سے رنگین کرکے اقتدار کو آسا ن بنانے کی خواہش ذہن کے کسی نہ کسی گوشے میں محفوظ رکھتی ہے۔
تعلیمی اداروں کو سیاسی ونگز سے پاک رکھنے کے لیئے۔ یوتھ اسمبلیوں کی طرح ہر تعلیمی ادارے میںآن لائن سٹوڈنٹس اسمبلیاں بنائی جاسکتی ہے ۔ سٹوڈنٹس اسمبلیوں کو ضلعی ، صوبائی اور قومی اسمبلی کی طرح ڈیزائین کیا جا سکتا ہے۔تعلیمی اداروں کا فنڈ انہیں بجٹ کے طور پر دیا جا سکتا ہے۔انہیں تعلیمی اداروں اور طلباء کے مسائل حل کرنے کا اختیار دیا جاسکتا ہے۔انہیں سیاسی اور سماجی پراجیکٹ دیکر ان کی عملی تربیت کی جا سکتی ہے۔ان اسمبلیوں کی کابینہ کی تشکیل سے طلبا کو قائدانہ کردار ادا کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔
طلبا کو ضلعی،صوبائی ،قومی اور سینٹ کے اجلاسوں کو دیکھنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ارض وطن کو طاقت اور اختیار والوں نے سیکورٹی کے نام پر محصورکررکھاہے۔تعلیمی اداروں میںطلبا کو قومی دھارے میں لاکر سیاسی تربیت کرنا انتہائی ضروری ہے۔اس عمل سے طلبا میں مثبت سیاسی سوچ اور مثبت رویے پیدا کیئے جا سکتے ہیں۔اور طلباء کو اُن سیاسی پارٹیوں کے نرغے میں آنے سے بچایا جا سکتا ہے۔جو اقتدار میں آ نے کے بعد طلبا ء کو ٹشو پیپر کی طرح پھینکتی رہی ہیں۔ارض وطن کی سیاست کو نئے جذبوں،نئے ٹیلنٹ اور نئی سوچ کی اشد ضرورت ہے۔
طلبا کو قومی سیاسی دھارے میں لا کر سیاست دانوں کو سیاسی مافیا بننے سے روکا جا سکے گا۔سیاست دان اپنی سیاسی جاگیریں قائم نہ رکھ سکیں گے۔او نہ ہی اپنے نا اہل سیاسی وارث اس ملک پر مسلط کر سکیںگے۔سیاسی باریاں بدلی نہیں جا سکیں گی۔۔نوجوانوں کو سیاست منتقل کرنے سے موروثی سیاست قصہ پارینہ بن جائے گی۔سیاست کے ٹیپو سلطان عمران خان لمبی حکومت کرنے کی خواہش کی بجائے ٦٥ فیصد نوجوانوں کو حقِ حکمرانی منتقل کریں اور طلبا تنظیموں سے پابندی ہٹاکر انہیں قومی سیاسی دھارے میں شامل کریں۔ کیا ہی اچھا ہوتا چیف جسٹس آرمی چیف کی مدت ملازمت کے ساتھ سیاست دانوں کی عمر کا بھی تعین کر دیتے۔