تحریر : عتیق الرحمن مہذب معاشروں میں سماج کے تمام طبقات کے وابستگان کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جاتاہے اور جہاں کہیں استحصال کی ناپاک بدبو نظرآئی تو ہمہ جہتی طبقوں نے اپنے حقوق کے تحفظ کیلئے یونینز اور تنظیمیں تشکیل دی ہیں۔دنیا بھر کا آئین و قانون ہر ایک فرد بشر کو بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے ۔ملک پاکستان اسلام کے نظریہ پرمعرض وجود میں آیا ۔وہ دین حق جو معاشروں سے ظلم و جور اور امیر و غریب کی تفریق مٹانے آیا تھا اور عملی طورپر نمازپنجگانہ میں محمود و ایاز کو صف میں کھڑا کرکے تعصبات اور تفرقات کا خاتمہ کردیا ۔مگر آج یہی وطن عزیز ہی ہے کہ جس میں امیر وغریب کیلئے قانون الگ ہے، طاقتور کمزور کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہاہے۔سردار و حکمران عوام کے حقوق پر شب خون مارنے کو سعادت سمجھتاہے ۔یہ عمل قبیح معاشرے کے دیگر اداروں کے علاوہ تشکیل معاشرہ میں اہم کردار اداکرنے والے تعلیمی اداروں تک دراز ہوچکا ہے۔
طلبہ و اساتذہ اپنے جائز حقوق کے حصول کیلئے جہاں دربدر ہوچکے ہیں وہیں پر وطن عزیز کو نئی و مضبوط اور باصلاحیت قیادت کی فراہمی بھی ناپید ہوچکی ہے کیونکہ اس عمل کا مرکز و منبع طلبہ یونین تھیں کہ جہاں پر طلبہ سیاسی و سماجی لحاظ سے قیادت و سیادت سنبھالنے کی صلاحیتوں کی تربیت حاصل کرتے تھے اور ملک و ملت کا نام روشن کرنے کیلئے ملک و بیرون ملک میں اپنا نمائندہ کردار اداکرتے تھے ۔اسی کے ساتھ تعلیمی اداروں کے کمرشل استعمال کے نتیجہ میں طلبہ و اساتذہ کے استحصال کی روک تھام کیلئے مناسب کردار اداکرتے تھے جس کا نتیجہ تھا کہ ملک میں مہذب و شائستہ مذاج قیادت میسر آتی تھی مگر طلبہ یونین پر پابندی کے بعد تعلیمی اداروں میں جہاں طلبہ کا استحصال بڑھا وہیں پر طلبہ و طالبات نے اپنے حقوق کے حصول کیلئے قانون کو ہاتھوں میں لینے کی سعی کرلی ۔جس کے نتیجہ میں ملک کی اہم ترین جامعات بشمول بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ،پنجاب یونیورسٹی ،قائد اعظم یونیورسٹی ، بہائوالدین زکریا یونیورسٹی سمیت متعدد تعلیمی اداروں میں آئے روز احتجاج و مظاہروں کا اہتمام کرنے کے ساتھ ہی پرتشدد سرگرمیاں بھی عروج پر ہیں ۔جوکہ لمحہ فکریہ ہے ارباب اقتدار و اصحاب علم و دانش کیلئے کہ انہوں نے تعلیمی اداروں کو سیاسی و مذہبی اور لسانی گروہوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے جس کے نتیجہ میں طلبہ و طالبات کی تعلیمی و اخلاقی و فکری تربیت کا جنازہ نکل چکا ہے۔
گزشتہ چار ہفتوں سے قائد اعظم یونیورسٹی مسائل سے دوچار ہوچکی ہے ۔یہ یونیورسٹی بین الاقوامی جامعات کی ٹاپ 500یونیورسٹیوں میںپاکستان کی واحد یونیورسٹی ہے جگہ بنانے میں کامیاب ہوئی ہے مگر افسوس کن امر یہ ہے کہ وہی عالمی معیار کی جامعہ طلبہ و طالبات کیلئے پریشانی و تکلیف کا باعث بن چکی ہے جن طلبہ کی ریسرچ و تحقیق کی بناپر اسے اعلیٰ مقام ملا اسی میں آج طلبہ اپنے جائز حقوق کے حصول کیلئے بھی احتجاج و بھوک ہڑتال اور یونیورسٹی کو بند کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔پاکستانی جامعات کا المیہ ہے کہ ان کے منتظمین آمرانہ و ظالمانہ مزاج رکھتے ہوئے طلبہ و اساتذہ کا استحصال کرنا شعار بنا چکے ہیں۔تعلیم و تحقیق کا ہٹ دھرمی و دیدہ دلیری کی وجہ سے جنازہ بھی نکل چکا ہے۔یہاں تک کے پروچانسلر و چانسلر اور چیئرمین ایچ ای سی بھی طلبہ کے حقوق پر شب خون مارنے میں شریک جرم ہوچکے ہیں۔ایسے میں یقینی بات ہے ک ملک پاک سے اعلیٰ تعلیم و تربیت اور تحقیق کا جنازہ نکلنامقدر بن چکا ہے ۔قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میںقائد اعظم یو نیورسٹی کے وائس چانسلر نے یو نیورسٹی میں حالیہ ہڑتال اور احتجاج کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ یو نیورسٹی میں دو لسانی گروہوں کے در میان پر تشدد لڑائی کے بعد طلبہ کو نکالا گیا تھا ان طلباء کو دی گئی سزائوں کی حمایت اساتذہ اور وزیر تعلیم نے بھی کی یہی طلبہ موجودہ احتجاج کی قیادت کر رہے ہیں۔وہ مزید13مطالبات بھی لے آئے ہیں لیکن ان کا اصل مطالبہ نکالے گئے طلباء کو بحال کر نا ہے۔یہ طلباء جب ہمارے ساتھ مذاکرات کر تے ہیں تو احتجاج ختم کر نے پر مان جاتے ہیں لیکن جب باہر جاتے ہیں تو ان کی پوزیشن بد ل جاتی ہے۔
یو نیورسٹی کی چیئر مینز اینڈ ڈینز کمیٹی یہ سمجھتی ہے کہ اگر انہیں بحال کیا گیا تو دو بارہ یو نیورسٹی میں حالات خراب ہوں گے۔ جن لوگوں کو سزائیں دی گئی ہیں ان کو معاف نہیں کرنا چاہئے۔چند لوگوں کی وجہ سے یو نیورسٹی کا ماحول خراب نہیں کیا جا سکتا۔تاہم جن کی سازائیں مکمل ہو گئی ہیں یا جو طلباء اپنے جرمانے ادا کر چکے ہیں انہیں بحال کر دیا جائے تو صرف چند طلباء باقی رہ جائیں گے۔ حالات کو اس نہج تک پہنچانے میں یو نیورسٹی کی انتظامیہ بھی ذمہ دار ہے ۔پانی کے مسائل کو حل کر نے کیلئے یو نیورسٹی کو 6ماہ پہلے رقم دی گئی تھی۔ جس پر چیئر مین کمیٹی نے وائس چانسلر کو کہا کہ یہ آپ کی کمزوری ہے کہ جو لڑکے غیر قانونی طور پر ہاسٹلوں میں رہتے ہیں ان کو کیوں نہیں نکالتے میں وائس چانسلر ہوتا تو ان کو کان سے پکڑ کر باہر نکالتا۔آپ کو اس مسئلے سے نمٹنے کیلے جارحانہ سوچ اپنانا پڑے گی۔میں اس کے حق میں قطعا نہیںہوں کہ نکالے گئے طلباء کو بحال کیا جائے ۔ہم ملک کی دوسری یو نیورسٹیوں کیلئے غلط مثال نہیں قائم کر نا چاہیے۔
قائد اعظم یونیورسٹی اگرچہ تعلیمی سرگرمیوں کیلئے کھل چکی ہے مگر افسوس کن امر یہ ہے کہ بعض طلبہ اپنے مطالبات کے حق میں مظاہرہ کررہے ہیں اور ڈھٹائی کا بدترین مظاہرہ یونیورسٹی انتظامیہ کی ایماپر اسلام آباد انتظامیہ نے طلبہ و طالبات کو گرفتار کیا اور ان پر تشدد بھی کیا جو کہ قابل مذمت ہے ۔اب گرفتار طلبہ تو رہاہوچکے ہیں مگر ان کے مطالبات تاحال منظور نہ ہوسکے ۔واضح رہنا چاہیے کہ تعلیمی اداروں سے گروہی ولسانی تفریق و تقسیم کی بدبو نہیں آنی چاہئے کہ بلوچستان کے طلبہ پر تشدد بھی کیا جارہاہے اور ہراساں بھی مگر دوسری جانب دیگر طلبہ کو کھولی چھٹی دیدی گئی ہے اور ان کی منفی سرگرمیوں سے درگزر کیا جاتاہے ۔بلوچستان کی حکومت معاملات کی بہتری کیلئے میدان میں اترچکی ہے جوکہ خوش آئندہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت و انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے جہاں پر یونیورسٹی میں تعلیمی سلسلہ کی بحالی کو استمرار دیں وہیں پر یہ بھی ضروری ہے کہ یونیورسٹی کے کسی بھی طالب علم کے مستقبل کا جنازہ نکالنے سے احتراز کریں کیونکہ اس کے نتیجہ میں طلبہ و طالبات منفی و غیر اخلاقی و لاقانونی سرگرمیوں میں مشغول ہوجائیں گے جوکہ کسی طورپر ملک و ملت کے مفاد میں نہیں ہے۔
Atiq ur Rehman
تحریر : عتیق الرحمن 0313-5265617 atiqurrehman001@gmail.com