سماع

Samah

Samah

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

مولوی صاحب کسی بھی حال میں ہا ر ماننے کو تیار نہیں تھے جب انہوں نے دیکھا کہ اُن کا پہلا تیر نشانے پر نہیں بیٹھا اور مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکا تو انہوں نے اپنے ترکش سے ایک اور تیر نکالا چڑھایا اور میری طرف داغ دیا اب انہوں نے اپنی شکست کو جیت میں بدلنے کے لیے نیا پینترا بدلا ‘ میں بڑے عرصے سے اولیا ء کرام اہل تصوف کے حالات زندگی کا مطالعہ کر رہا ہوں اور میں صوفیا کرام کی دینی خدما ت کا معترف بھی ہوں لیکن آج تک سماع کی شرعی اسلامی حیثیت کیا ہے اِس پر مطمئن نہیں ہو سکا ‘ پروفیسر صاحب مجھے سماع پر کچھ تحفظات ہیں براہ مہربانی میرے تحفظات کو دور فرمائیں یہ کہہ کر انہوں نے شریر معنی خیز نظروں سے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا ‘ اپنی طرف سے مولوی صاحب میرے کمزور حصے پر حملہ آور ہو چکے تھے کہ میں سماع کے حوالے سے انہیں مطمئن نہیں کر سکوں گا اِس طرح فتح کے شادیانے بجاتا ہوا میدان کو فتح کر کے واپس جائوں گا کیونکہ بعد میں پتہ چلا تھا کہ اُن کا میرے پاس آنا ہی اِس مسئلے پر بات کرنا تھا جب خدا کے فضل سے میری شہرت پھیلی ‘ ہزاروں لوگوں کا مجمع شروع ہوا تو چھوٹے سے شہر میں بھونچال سا آگیا یہ حق محبوبیت تو صرف ہمارا ہے۔

یہ پروفیسر کون ہو تا ہے جس کے پاس ہزاروں لوگ ادب و احترام سے آتے ہیں اِس کو توڑنے کے لیے جب اِن نام نہاد مذہبی ٹھیکیداروں نے اپنی تنقید کی بندوقوں کا رخ میری طرف کیا مختلف جا سوسوں کی ڈیوٹی لگائی کہ میرے معمولات شب و روز کا مطالعہ کر نے کے بعد میرے کمزور حصوں کی نشاندہی کی جائے تاکہ اُس پر حملہ آور ہو کر مجھے شکست دی جاسکے اور یہ فتح کے جھنڈے لہراتے جائیں ساتھ میں شرط بھی لگا دی کہ کسی بڑے بزرگ صوفی کے حالات زندگی سے ثابت کریں گے تو میں مانوں گا ورنہ نہیں ‘ اپنی طرف سے انہوں نے کامیاب وار کیا تھا اب میں نے بولنا شروع کیا جناب آپ نے شرط یہ لگائی ہے کہ میں کسی بڑے بزرگ کے حالات زندگی سے دلائل کے ساتھ یہ ثابت کروں کہ سماع کوئی غیر شرعی کام نہیں ہے تو آپ کی خدمت میں عرض یہ ہے کہ تاریخ اسلام کے عظیم عالم دین شیخ الاسلا م امام غزالی کی کتابیں احیاء العلوم کیمیا سعادت مکاشفتہ القلوب وغیرہ سماع کی حمایت میں بھری ہوئی ہیں لیکن میں آپ کی خدمت میںثابت کرنے کی عاجزانہ کو شش کر تا ہوں۔

حضرت شیخ نظام الدین اولیا محبوب الٰہی تاریخ تصوف کے وہ عظیم ترین درویش ہیں جنہوں نے طویل عمری میں کئی بادشاہوں کا دور دیکھا خدا ئے ذولجلال نے آپ کو جو شان ِ محبوبیت عطا کی وہ بہت کم بزرگوں کے حصے میں آئی ‘ دربار نظامی کے سامنے سلطانی دربار کی شان و شوکت ماند پڑ گئی یہاں تک کہ اہل دہلی اور ہندوستان کے عوام دربار نظامی میں حاضری دینا سعادت سمجھتے تھے آپ کی بے پناہ مقبولیت بادشاہ کو پسند نہ تھی ‘ سارا دہلی ہندوستان بادشاہ کے دربار میں سلامی دیتا تھا حضرت نظام الدین اولیاء دربار نہیں جاتے تھے یہ بات بادشاہ کو بہت کھٹکتی تھی کہ بار بار بلانے پر بھی نظام الدین شہنشاہ دنیاوی بادشاہ کے دربار میں نہیں جاتے تھے شیخ نظام الدین کی بے پناہ ہر دلعزیزی علما ء وقت کو بھی اچھی نہیں لگتی تھی وہ بھی اُس موقع کی تلاش میں تھے کہ کسی طرح اِن کی شہرت ہر دلعزیزی کو داغدار کیا جاسکے آخر کار ان حاسد ‘ دنیا پرست علما ء کو وہ موقع میسر آگیا انہوں نے مل کر جناب شیخ کے بارے ایک مضمون تیار کیا جس پر سینکڑوں دنیا پرست علما ء کے دستخط موجود تھے اِس طرح انہوں نے اپنے موقف کو سچا ثابت کر نے کی کامیاب کو شش کی جس کا مضمون یہ تھا کہ دلی شہر میں ایک ایسا درویش بھی موجود ہے جس کا نام محمد نظام الدین ہے جو شریعت اور اسلامی عقائد پر عمل پیرا ہو نے کی بجائے سماع کو ترجیح دیتا ہے ہر وقت سماع میں غرق رہتا ہے اُس کے مرید دورا ن سماع ناچ دھمال رقص کرتے ہیں اگر اِس بدعت کو روکا نہ گیا تو یہ بدعت سارے معاشرے کو اپنی لپیٹ میںلے لے گی ۔

اس طرح اسلام کی عظیم الشان عمارت کے شکستہ ہو نے کے خطرات پیدا ہو جائیں گے اسلامی معاشرہ صراطِ مستقیم سے ہٹ کر گمراہی کا شکار ہو جائے گا اسلامی معاشرے اور مسلمانوں کے عقائد کی درستگی کے لیے فوری طور پر سماع پر پابندی لگائی جائے سلطان وقت غیاث الدین تغلق تو خود ایسے موقع کی تلاش میں تھا اُس نے دنیا پرست علما ء کو ساتھ ملایا اور فوری طور پر حکم نامہ جاری کیا یہ اسلام اور شریعت کا ضروری مسئلہ ہے لہٰذا نظام الدین اولیاء فوری طور پر دربار شاہی میں حاضر ہو کر سماع کے بارے میں دلائل دے کر علمائے ہندوستا ن کو مطمئن کریں نہیں تو فوری طور پر سماع پر بالجبر حکومتی پابندی عائد کر دی جائے گی یہ وہ پہلا اور آخری موقع تھا جب شیخ نظام الدین دربار سلطانی میں حاضر ہو ئے آپ کے ساتھ دو جید مرید بھی تھے مولانا فخرالدین رازی اور مولانا کمال الدین سامانی یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ مولانا رازی وہ جید عالم دین تھے ہندوستان کے بڑے بڑے علما کی گردنیں اِن کے سامنے خم رہتی تھیں یہی حال شہرت مولانا کمال الدین کی تھی کہ زمانہ اُن کے علم اور مذہبی بصیرت کا دم بھرتا تھا ۔

پھر تاریخ صوفیا کا عظیم درویش جب دربار شاہی میں حاضر ہوا تو وقت کے بڑے 653علماء سماع کے موضوع پر اختلاف اور بحث کے لیے تیار تھے قاضی شہر جلال الدین شیخ فرزادہ جام بھی پیش پیش تھے قاضی شہر نظام سرکار کی شہرت سے بہت حسد کر تا تھا اور شدید مخالفت کرتا تھا اِسی حسد کا اظہار کرتے ہوئے قاضی شہر نے سماع کے خلاف دلائل کی بارش کر دی پھر فرزادہ جام نے سماع کی مخالفت میں طنز کے نشتروں کی بارش کر دی پھر دوسرے علما ء نے بھی اعتراضات کے پہاڑ کھڑے کر دئیے اِن اعتراضات میں سماع پر اعتراض کم جناب نظام الدین کی شخصیت پر اعتراضات زیادہ تھے جب مخالفین خوب بول چکے تو شیخ نظام الدین سرکار نے بولنا شروع کیا سماع کو حرام قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ سماع سے قلب و روح باطن میںایک خاص تحریک پیدا ہو تی ہے اگر یہ تبدیلی یاد الٰہی کے لیے ہے تو درست ہے اگر اِس کا انسانی دماغ جسم پر مثبت مذہبی اثر پڑتا ہے تو ٹھیک ہے اور اگر یہ تحریک فساد برائی کی طرف جائے تو غلط اور حرام ہے اِس کے بعد جناب شیخ نے سماع کی حمایت میں پانچ شرائط بیان کیں جن پر آپ سختی سے عمل کیا کر تے تھے۔

پہلی شرط جو بھی کلام پیش کیا جائے وہ قطعاً عارفانہ ہو یا پھر انسانی اخلاق کو ابھارنے والا دوسری شرط یہ کہ سماع پڑھنے والا خود نہایت پرہیز گار ہو نا چاہیے فاسق جھوٹا نہ ہو پکی عمر کا ہو نا چاہیے سماع کے وقت کوئی نوجوان لڑکا سماع کی محفل میں شریک نہیں ہو نا چاہیے تیسری شرط یہ کہ دوران سماع سننے والے کی نیت ٹھیک ہو نی چاہیے اور اگر وہ خدا کے قرب عشق گداز کے لیے خدا کے قریب ہو نے کے لیے سن رہا ہے تو باطن میں نیکی اور روحانی سر شاری پید اہو رہی ہو تو جائز درست ہے اگر سماع قرب الٰہی کی بجائے تفریح ہے تو ایسی سماع قطعاً حرام نا قابل قبول ہے چوتھی شرط سماع میں مو سیقی کے آلات بلکل بھی استعمال نہیںہو نے چائیں چنگ و رباب دوسرے آلات موسیقی سے پرہیز ہو نا چاہیے پانچویں اور انتہائی اہم شرط مجلس سماع میں خواتین کی شرکت سختی سے منع ہے شرکت تو دور کی بات عورتوں کا سایہ بھی محفل سماع پر نہیں پڑھنا چاہیے ۔

درویش باکمال کے دلائل سے دربار شاہی کے درو بام لرز رہے تھے دنیاوی علما ء اور بادشاہ پر سکتہ طاری تھا سب پتھر کے بت بنے شیخ نظام الدین کے منہ سے سماع کے حق میں ابلتا آبشار دیکھ اور سن رہے تھے دنیاوی علماء کی تقریریں آپ کے سامنے اِس طرح ماند پڑگئیں جس طرح آفتاب کے سامنے ستارے پھیکے پڑ جاتے ہیں تاریخ کے اوراق گواہی دیتے ہیں کہ ساری زندگی کسی بھی مناظرے میں کوئی شخص آپ پر سبقت نہ لے جا سکا تقریر ختم کر نے کے بعد آپ انتہائی شان بے نیازی سے دربار سے رخصت ہو گئے ایک کامل درویش کے سامنے دنیا پر ست علما ء گونگوں کی طرح چپ تھے درویش بے نیاز اپنی سبقت ثابت کر کے جا چکاتھا آپ کے جانے کے بعد علما ء نے پھر بادشاہ کو اکسایا کہ وہ سماع پر پابندی لگا دے تو بادشاہ دھاڑ کر بولا تم سارے ہندوستان کے علماء اِس مناظرے میں شیخ نظام الدین کو شکست نہ دے سکے جس دن اُن کو لاجواب کردو گے میں پابندی لگا دوں گا لیکن یہ دن پھر کبھی نہ آیا ‘ کوہ مری مُجھ درویش کے سامنے موجود مولوی شرمندہ تھا اٹھ کر مجھے گلے لگایا دعا کی درخواست کی پھر باجی مورت کو بھی گلے سے لگایا اورتو بہ پر پکے رہنے کی دعا دے کر رخصت ہو گئے میں نے زندگی میں پہلی بار کسی ہیجڑے کو مولوی صاحب کے گلے لگتے دیکھا تھا یہ توبہ کا نور تھا جو باجی مورت کے وجود سے چھلکتا تھا کہ مولوی صاحب گلے لگا کر رخصت ہوئے۔

Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti

Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل: help@noorekhuda.org
فون: 03004352956
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org