واشنگٹن: ہکلاہٹ کے مطالعے کے بین الاقوامی شہرت یافتہ ماہر نے کہا ہے کہ عین ممکن ہے کہ ہمارے دماغ میں ستارہ نما شکل کے نیورون ’ایسٹروسائٹس‘ لوگوں کی گفتگو میں رکاوٹ ڈال کر انہیں ہلکلاہٹ میں مبتلا کرتے ہیں۔
ڈاکٹر جیرالڈ اے میگوائر اور ان کے ساتھیوں نے ایسٹروسائٹس عصبیوں (نیورون) کی غیرمعمولی سرگرمی کو ہکلانے کا ذمے دار ٹھہرایا ہے۔ تحقیق بتاتی ہے کہ یہ خلیات اسٹرائٹم نامی دماغی گوشے میں پائے جاتے ہیں۔ یہ حصہ اعضا کی باہمی حرکات اور اکتساب کو کنٹرول کرتا ہے۔
ہکلاہٹ کے عمل میں بولنے والا اٹک اٹک کر بات کرتا ہے اور بعض الفاظ کے اخراج میں طویل وقفہ بھی لیتا ہے لیکن ابتدائی طور پر ہمیں معلوم ہے کہ ڈوپامائن نیوروٹرانسمیٹر کی غیرمعمولی سرگرمی بھی اس کی وجہ ہوتی ہے۔ تاہم اب تک خلیاتی سطح پر اسے سمجھا نہیں گیا تھا۔
اسے روکنے کی ایک دوا ریسپرائڈن ہے جو ڈوپامائن کی سرگرمی کو روکتی ہے اور اس سے آٹزم اور دیگردماغی کیفیات کا علاج بھی کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹرجیرالڈ نے دیکھا کہ دوا لینے کی صورت میں ڈوپامائن کی سرگرمی روکنے میں ایسٹروسائٹس کا بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ ایسٹروسائٹس ایسے سگنل خارج کرتے ہیں جس سے ڈوپامائن کی کاٹ ہوتی ہے۔ اس طرح اب ماہرین ہکلاہٹ کے بڑھنے اور روکنے کے عمل کا سگنل اور سالماتی راستہ سمجھ چکے ہیں۔
اس کے بعد دس افراد کو دو گروہوں میں برابر تقسیم کیا گیا ۔ ڈبل بلائنڈ اسٹڈی میں چھ ہفتے تک ایک کو ریسپرائڈن دی گئی اور دوسرے گروپ کو فرضی دوا (پلے سیبو) کھلائی گئی۔ اس کے بعد مختلف اسکینر بشمول پی ای ٹی سے ان کا دماغی جائزہ لیا گیا۔ معلوم ہوا کہ یہ دوا گلوکوز کی جاذبیت بڑھاتی ہے اور یوں مریض کی ہکلاہٹ کم ہوتی جاتی ہے۔
اسطرح پہلی مرتبہ دماغ میں ستارہ نما ایسٹروسائٹس کا بہت اہم کردار سامنے آیا ہے۔