انوکھا اور منفرد

Dictatorship

Dictatorship

تحریر : محمد قاسم حمدان
دنیا بدترین سیاسی آمریت کو بہترین فوجی ڈکٹیٹر شپ پرفوقیت دیتی ہے۔ سیاسی عمل کا تسلسل لوگوں کی شخصی آزادی اور قومی اداروں کی سالمیت و مضبوطی کا سبب بنتا ہے۔ اس سب کے باوجود یہ تسلیم کر ناپڑے گا کہ ڈکٹیٹر شپ نے ہمیشہ سیاسی آمریت کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم کی شہادت، خواجہ ناظم الدین، چودھری محمد علی، فیروز خان نون اور سہروردی کی سیاسی حکومتوں کا تہہ وبالا کیا جانا، گورنر جنرل غلام محمد سے سکندر مرزا تک محلاتی سازشوں کے سب راز قدرت اللہ شہاب نے شہاب نامہ میں افشا کیے ہیں۔

اگرکسی نے کسی کوہٹانے کے لیے اس کے راستے میں کھائی کھودی تونئے آنے والے نے اس کے لیے گڑھاکھودا۔اس بدترین سیاسی شطرنج کو لپیٹنے کی دعوت ایوب خان کو سیاست دانوں کے اعمال نے دی۔ جنرل ایوب خان کے دور میں 65ء کی جنگ لڑی گئی۔

محترمہ فاطمہ جناح سے جوسلوک انہوں نے کیاوہ بھی تاریخ کاحصہ ہے۔ قوم نے ان کو کتا کہہ کر اقتدار کے ایوانوں سے رخصت کیا۔ یحییٰ خان نے ملک دولخت کیااور اپنے انجام کو پہنچا۔ ضیاء الحق کی مظلومانہ شہادت ہوئی۔مشرف کے آنے پرمٹھائی تقسیم ہوئی اور جانے پربھی۔ آج انہیں کئی ایک مقدمات کاسامناہے۔کھال جیسی وردی بھی اب نہیں رہی اورنہ ہی خاموش اکثریت نے ان کاکوئی ساتھ دیا۔قوم نے حرف غلط کی طرح اپنی تاریخ سے ان آمروں کو نکال دیا۔ ان کے لیے آج کوئی کلمہ خیر کہنے کو تیار نہیں۔

ایک ایساآمرجو انوکھااورمنفرد ہے۔ اس کابچپن غربت کے سبب سڑکوں پر شربت اور نان بیچتے گزرا۔ جس کی جماعت2002ء میں اقتدار میں آئی اور پھرہرنئے الیکشن میں پہلے سے زیادہ ووٹ اسے ملے۔ جب اس ڈکٹیٹر نے صدر کاانتخاب لڑا تو52فیصد ووٹوں سے کامیابی نے اس کے قدم چومے۔گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں اس کی جماعت کو معمولی اکثریت حاصل ہوئی تو اس نے اپوزیسن جماعتوں کوحکومت بنانے کی دعوت دی۔مگراپوزیشن اس موقع سے فائدہ نہ اٹھاسکی تو پھر اس آمر نے عوام کے پاس جانے کافیصلہ کیا اور نئے انتخابات کااعلان کر دیا۔

پھر تمام سروے اور اندازے اس وقت غلط ہوگئے جب ان کی جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ نے 50 فیصد کے ساتھ میدان مارلیا۔اس آمرنے اقتدارمیں قدم رکھا تو ترکی کی معیشت برے حال میں تھی۔پھرڈالر کوایسی مار دی کہ وہ 222لیرا سے پونے تین لیرا پرآگیا۔ ترکی میں فی کس آمدنی 1700ڈالر سے بڑھ کر گیارہ ہزار تک پہنچادی ۔یہ انوکھااور منفرد آمر ترکوں کامحبوب قائد رجب طیب اردوان ہے۔ اپنے قائد کی خاطر ترکوں نے ایک نئی تاریخ رقم کر دی۔

Election

Election

جولائی کی رات ترکوں نے ایک آزد ملک کی حیثیت سے زندگی اور موت کی جنگ لڑی۔ اس رات فوجی باغیوں نے کسی بھی اشتعال کے بغیر ترکی کے نہتے عوام پربے رحمانہ انداز میں فائرنگ کی۔اس رات فوجی غداروں نے ترکی کی پارلیمنٹ پرF16 سے بمباری کی اور احتجاجی عوام پر فوجی ہیلی کاپٹروں سے ایسی مشین گنوں سے فائرنگ کی جس کے استعمال کی اجازت صرف جنگوں میں دشمن فوجیوں سے لڑتے ہوئے ملتی ہے۔ مگر اُس رات ترکی کی فوج میں قدم بہ قدم انفلٹریشن کرکے اُسے اپنے مقاصد کے لیے بروئے کار لانے کی کوشش کرنے والی ایک طاقت کے ظالم غلاموں نے قتل عام کرکے ترکی کے عوام کا سر خم کرنے کا اقدام کیا۔ مگر یہ قوم جو صدیوں سے صلیبی جنگوں سے عہدہ بر آ ہوئی اور بارہا مرتے مرتے پھر سے اُٹھ کھڑی ہوئی، اِس قوم نے ترکی کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کو یہ کردکھایا کہ ہمیں غلام بنانا ممکن نہیں ہے۔

اُس رات جب غدار فوجی عام لوگوں کے اوپر ٹینک چلاکر جارہے تھے تو لوگ اُن کو روکنے کے لیے ٹینکوں کے نیچے لیٹ گئے مگر وہ رکے نہیں۔ ایک ٹینک نے بتیس سالہ خاتون کے اوپر سے ایک نہیں تین چار دفعہ گزر گزر کر اُس کو کچل دیا۔لوگ پھر بھی ڈرے نہیں اور زیادہ غصے سے ٹینکوں پر وار کیا اورٹینکوں کو روکنے کے لیے آگے کھڑے ہوئے۔

پھر کسی نے سوچا کہ اِس کے ایگزوسٹ پائپ میں کپڑا گھسادوں ہو سکتا ہے کہ یہ رک جائے تو اُس نے اِس پر عمل کیا اور وہاں لوگوں نے اپنی قمیصوںکونکال کر ٹینک کے پائپ میں گھسادیا اور واقعی چند منٹ بعد ٹینک رک گیا اور اندر جو باغی تھے وہ دھوئیں کی وجہ سے باہر نکلنے پر مجبور ہوگئے۔اور پھر کسی ایک جگہ کسی نے سوچا کہ اگر میں ٹینک کی بیلٹ کے اندر بڑا پتھر ڈالوں تو شاید یہ رک جائے۔ اُس نے بھی اِس پر عمل کیا اور لوگوں نے ٹینک کی بیلٹ کے اندر پتھر اور لوہے کے ٹکڑے ڈال دئیے تو واقعتا اُس ٹینک کی بیلٹ بھی خراب ہوئی۔ پھر اِس کی خبریں واٹس اپ کے ذریعے ایک دو منٹ میں تمام استنبول اور انقرہ میں پھل گئیں اور لوگوں نے اِس پر عمل کرکے باغیوں کے کئی ٹینکوں کو ناکارہ بنایا۔

پھر جب ایف 16سے باغیوں نے بالکل نیچے آکر لوگوں کے اوپر سے گزرنا شروع کیا جس وجہ سے بم دھماکے کی آواز اور شاک پیدا ہورہا تھا تو کچھ لوگ اُونچی عمارتوں کے اوپر چڑھ کر ایف 16کے عمارت کے نزدیک آتے ہی اُس کے اوپر وزنی چیزیں پھینکنے لگے حتیٰ کہ ایک شہری ایک ایف 16کے اوپر کود پڑا۔ اُس رات ترکی کے لوگوں کے دلوں سے اللہ تعالیٰ نے ڈر اور خوف کو اُٹھا ہی لیا۔ ترک عوام نے یہ ٹھان لی تھی کہ وہ پھر سے کسی کے غلام نہیں بنیں گے اور ترکی عوام کو اپنے منتخب صدر اور وزیر اعظم کو پھانسی پر لٹکتے دیکھنا ہرگز گوارہ نہیں تھا۔

صدررجب طیب اردوان نے سیدمشاہدحسین کی قیادت میں تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندہ وفد سے ملاقات میں بتایا کہ یہ رات ہمارے لیے مشکل بھی تھی اور تاریخ ساز بھی۔ میں کیسے اس26سالہ نوجوان صابری کوبھول جاؤں جو ٹینک کے آگے لیٹ گیااور اس کے دونوں بازو کٹ گئے،میں کیسے اس خاتون جمیلہ کو بھلاسکتاہوں جوجمہوریت کے کاز میں ماری گئی لیکن اس کا خاندان ہمارے ساتھ آج بھی بلند حوصلے کے ساتھ کھڑا ہے۔

Turkey Rebellion

Turkey Rebellion

رجب طیب اروان کہہ رہے تھے کہ زندگی اور موت میں کچھ ہی فاصلہ رہ گیا تھااور شاید یہ فاصلہ پندرہ منٹ تھا۔ مغرب کے منافقت اور پروپیگنڈے سے بھرے جوہڑ میں ڈبکیاں لگانے والے ہمارے میڈیاسے کچھ افراد نے اپنازور اس بات پر لگادیا کہ یہ بغاوت توایک ڈرامہ تھی۔ انہیں رنج ہے کہ وہ پندرہ منٹ کافاصلہ ختم کیوں نہ ہوا اور باغیوں کے ہاتھوں رجب طیب اروان کی لاش کوسڑکوں پر گھسیٹنے کامنظرانہیں دیکھنے کوکیوں نہ ملا۔ مغرب کوکسی صورت دنیاکی سولہویں بڑی معاشی طاقت ترکی کی ترقی گوارانہیں ہے۔ انہیں ترکی میں اسلام کااحیاء ہضم نہیں ہورہا۔گولن کی دہشت گردتنظیم فیتوسے متاثر کوئی احتساب اورانتقام کا ترک ماڈل لکھ کر نوحہ کناں ہے اورکوئی دنیا کو یہ بتانے چلاہے کہ آج کا صلاح الدین ایوبی توفتح اللہ گولن ہے۔

طیب اردوان توڈکٹیٹرہے جس سے اس کے عوام اپنی جان سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔انہیں سب سے بڑا دکھ یہ ہے کہ طیب اردوان آئندہ کی بغاوتوں کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کررہاہے۔ان کڑیوں کو توڑرہاہے جو باہم مل کر بغاوت کی بنیاد بنی تھیں۔ ان جراثیموں کوختم کردیاہے جو اس بیماری کاباعث بنے تھے۔الزامات کی بوچھاڑ میں سے ایک الزام مغربی ممالک کی آلہ کار ایک انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے نے لگایا اور درحقیقت اپنی فطرت کو آشکارکیا۔
اس نے رپورٹ شائع کی جس میں کہاکہ گرفتار فوجیوں سے غیرانسانی سلوک کیاجاتا ہے۔ ان کو دودن میں ایک بار کھانادیاجاتاہے اوران سے جنسی بدسلوکی کی جاتی ہے۔اس پراتناہی کہا جاسکتاہے کہ آئینے میں ہمیشہ اپناہی منہ نظرآتاہے۔یورپ وامریکہ میں ہم جنس پرستی اور سرومیت سے تواب چرچ بھی محفوظ نہیں۔

ترک فوج میں149جرنیل ‘1099 آفیسراور 436 پیٹی افسر اورعدالت کے 2745 جج اور سرکاری وکیل اور عدالت عظمیٰ کے 188ممبر برطرف کردیے گئے ہیں یاتحقیقات کے خاتمہ تک معطل ہیں۔ ان میں سے بھی بارہ سو کو گھر جانے کی اجازت دے دی گئی۔ اسی طرح ترکی کی چاریونیورسٹیوں کے وائس چانسلر ز گرفتار ہوئے اور900اساتذہ یاملازم معطل کردئیے گئے جن میں سے صرف چالیس کوگرفتارکیاگیاہے۔ گولن تحریک کے لوگ یونیورسٹیوں میں جہاں کسی عہدے پر فائز ہوئے ،وہیں صرف اپنے لوگوں کوبھرتی کیا۔ ایک صاحب کی تقرری ترکی کے سب سے اعلیٰ اور تحقیقی کونسل کے مدیر کی حیثیت سے ہوئی توانہوں نے کونسل میں چائے بنانے والے ملازموں تک کونکال کر اپنی ہی تحریک کے لوگوں کو بھرتی کیا۔اس تنظیم سے وابستہ ڈاکٹروں نے کیسے بغاوت میں حصہ لیا،اس کا بھی کچھ حال سن لیجیے۔ دارالحکومت انقرہ میں لوگ زخمی شہریوں کوجھڑ پ کے موقع پربالکل پاس طرغوت اورزال ہسپتال لے گئے توگولین تنظیم کے اس ہسپتال کے ڈاکٹروں نے ہسپتال کی لائٹیں اور دروازے بند کرکے زخمیوں کاعلاج کرنے سے انکار کر دیا۔

حکومت نے ٹی وی چینلز ،میڈیاہاؤسز اور کچھ ریڈیو چینلز بھی بند کیے کیونکہ وہ لوگ تین چارسالوں سے ترکی عوام کو صدرمملکت اورترکی کی منتخب حکومت کے خلاف بغاوت کرانے کے لیے جھوٹی خبروں سے گمراہ کر رہے تھے ۔بلکہ مغربی میڈیااور حکومتوں سے ترکی سے متعلق اہم ترین سیکریٹ معلومات شیئرکررہے تھے۔مغرب جو خود کو جمہوری اقدار کا پاسبان کہتاہے۔ترکی کی موجودہ بغاوت میں اس کی اقدار کی پاسبانی کی ڈرامہ بازی بھی واضح ہو گئی ہے۔جرمنی جہاں ترک بہت بڑی تعداد میں آبادہیں۔ان ترکوں نے فوجی بغاوت کے خلاف احتجاجی ریلی کرناچاہی تو جرمن حکومت نے روڑے اٹکاناشروع کیے۔ قانونی مشکلیں کھڑی کیں مگران کوناکامی کاسامنا ہوالیکن جرمنی کی عدالت عظمیٰ نے یہ فیصلہ کرکے پابندی عائد کی کہ اس ریلی سے اردوان ٹیلی کانفرنس کے ذریعے خطاب نہیں کر سکتے۔

ناکام بغاوت کے سرغنہ کی امریکہ نے مکمل سرپرستی کی۔امریکہ میں صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ دعویٰ کیاہے کہ ترکی کی بغاوت میں سی آئی اے ملوث ہے۔ آج گولن ترک عوام پر برس رہے ہیں کہ یہ احمقوں کاگروہ اپنے صدرکے حکم سے یہ سب کر رہے ہیں۔گولن کو ان سینکڑوں لوگوں کا جو ٹینکوں تلے کچلے گئے کچھ غم نہیں ‘انہیں صرف ان چند فوجیوں کا دکھ ہے جو دوران بغاوت مارے گئے اور جن کے سوگ کااس نے اعلان کیا۔

ترکی کے سیکولرزم کی محافظ فوج کے چیف آف آرمی سٹاف خلوصی آکارنے میڈیاکوبتایا کہ جس وقت ان باغی فوجیوں نے ان پرتشدد کرنا شروع کیاتوان باغی جنرلوں میں سے ایک نے کہا میں آپ کی اپنے روحانی لیڈر گولن سے فون پر بات کراتاہوں۔اس کے بعد آپ ہم سے تعاون کرنے پر تیار ہوجائیں گے۔ خلوصی کے اس بیان کے بعد توبغاوت کو ڈرامہ کہنے والوں کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیے۔ بعض لوگ اس کوا یک اوررنگ دے رہے ہیں کہ یہ سیکولرزم کوختم کرنے کی اردوان کی کوششوں میں سے ایک کوشش ہے لیکن اس رات اس بغاوت کے سامنے بند باندھنے والوں میں سیکولرپیش پیش تھے۔ سیکولر لیڈر قلیچ دار اوغلونے اس فوجی بغاوت کی سخت مذمت کی او رسات اگست کی فقید المثال ریلی میں وہ صدر اردوان کی دعوت پران کے ساتھ سٹیج پرموجودتھے۔ جمہوری خلق پارٹی کے کارکنوں نے فوجی بغاوت کے خلاف احتجاجی جلوس نکالا جس میں لاکھوں افراد جمع تھے۔ مزیدبرآں اس پارٹی کے ممبران اسمبلی پارلیمنٹ میں بغاوت کی رات اکٹھے ہوئے تھے۔
قصہ مختصر ان لوگوں کوانصاف اورخداخوفی سے کام لیناچاہیے جو اردوان اورترکی کے خلاف پراپیگنڈا کررہے ہیں اور یہ سب کچھ وہ حالات سے لاعلم ہوکر کر رہے ۔گویاان کے گولن تحریک سے مادی اورمعنوی روابط ہیں۔

ترکی میں اس وقت جو لوگ برطرف یامعطل ہوئے ہیں ان کے بارے تحقیقات کاعمل جاری ہے لیکن اس کے ساتھ ان کو دوتہائی تنخواہیں بھی دی جارہی ہیں۔بغاوت کاجرم ثابت ہونے والوں کو اپنے کیے کی سزا توبھگتنا ہوگی ۔دنیامیں کوئی بھی ملک ہو،وہ بغاوت کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرے گا۔ڈکٹیٹر کی رٹ لگانے سے حالات کارخ نہیں پھیراجاسکتا۔ اس وقت طیب اردوان کی اپنے عوام میں مقبولیت کایہ عالم ہے کہ اس وقت کروائے جانے والے سروے یہ کہتے ہیں کہ انہیں 62 فیصد عوام کی حمایت حاصل ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ عوام ان کے دبوانے ہی نہیں ان پر مر مٹنے اوراپنی جان نثارکرنے کے لیے تیار ہیں۔

Muhammad Qasim

Muhammad Qasim

تحریر : محمد قاسم حمدان