کسی بھی قومیت کو تضحیک کا نشانہ بنانا انتہا ئی نا پسندیدہ فعل ہے۔ اگر ایسے عوامل پیدا کئے جائیں، جس سے کسی بھی لسانی اکائی کے خلاف مذموم سازش کی بدبو اٹھے تو سمجھ جانا چاہیے کہ لسانی اکائیوں کے درمیان نفرت کی فصل کے بیج بوئے جا رہے ہیں۔ معروف پبلشر کی چھپی ’سات بیوقوف آدمی‘ کے عنوان سے فرضی کہانی نصاب کی کتاب میں شائع کی گئی اور ناقدین کے مطابق اس نسلی امتیاز‘ پر مبنی کہانی کو خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر سے جوڑا گیا جس سے ان لوگوں کی عزت نفس مجروح ہوئی، اسی طرح اس کتاب میں ’ایک بونیری اور مل‘، ’بونیری اور ان کی ڈوبتی ہوئی بیوی‘، ’فلاسفی بونیری‘ کے عنوان سے ایک درجن کے قریب فرضی کہانیاں شامل ہیں جس میں بونیر کے لوگوں کا ’مذاق‘ اڑیا گیا ہے۔اس انگریزی کتاب میں ان ’غیور‘ بونیر کے لوگوں کی تضحیک کی گئی ہے جو 1862 میں انگریزوں کے خلاف امبیلہ جنگ لڑ کر ان کو شکست دی تھی۔ایک پبلشر نے تحریری معافی مانگی لی تاہم اب بھی کئی معروف اداروں کے نصاب میں یہ فرضی کہانیاں شامل ہیں۔
برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی روشنی پھیلانے کا سہرا بے شک محمد بن قاسم ہے لیکن ان کے ادھورے مشن کو مکمل کرنے کا مکمل کریڈٹ پختونوں کو جاتا ہے۔ محمد بن قاسم کی جلائی گئی اسلام کی شمع،شہاب الدین غوری نے سارے ہندوستان میں پرتھوی راج کو شکست دے کر رکھی ہی نہیں بلکہ باقاعدہ طور پرمسلم حکمرانوں کی پہلی ریاست کی داغ بیل ڈالی، اس سے پہلے محمود غزنوی نے بھی ہندوستان فتح کیا تھا مگر تخت دہلی پر ان کے قدم جم نہ سکے۔یہ پختون ہی تھے جن کی بدولت دہلی پر مسلمانوں نے سات سو برس پر حکومت کی اس میں ساڑے تین سو سال پختونوں کی حکمرانی کے شامل ہیں۔ مسلمانوں کی نااتفاقی سے مغل حکمران دہلی تک محدود ہوئے۔جنرل بخت خان ایک حریت پسند پختون تھا،اس نے پوری قوت سے1857کی جنگ آزادی میں روح پھونکنے کی کوشش کی لیکن کمزور قیادت کی وجہ سے کامیاب نہ ہوسکا۔جنرل بخت خان نے مغل بادشاہ کی بہت منت سماجت کی لیکن بوڑھے لاغر بادشاہ میں خوئے مردانگی ختم ہوچکی تھی۔
1857 سے 1947تک کے نوے سال کے عرصے میں مسلمانانِ پاک و ہند کو یہ احساس ہوا کہ انگریزوں نے انھیں ہندوؤں کی طرح غلام بنایا ہوا ہے۔دل چسپ بات یہ ہے کہ ہندوؤں کی چالاکیوں کے سبب جب مسلم لیگ 1906ء میں بنی تو اس میں علامہ محمد اقبال اور قائد اعظم جیسے رہنما تو تھے ہی لیکن انھیں سرکردہ پختون رہنماؤں سردار عبدالرب نشتر، مولانا محمد علی جوہر(آباء جداد افغانستان سے ہجرت کرکے روہل کھنڈ اور پھر رامپور آئے تھے ان کا تعلق یوسف زئی قبیلے سے تعلق تھا)، مولانا ظفر علی خان وغیرہ کی بھی مکمل حمایت حاصل تھی۔ باچا خان بابا کی خدائی خدمت گار تحریک کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔جہاں انھوں نے پختونوں کو سیاسی شعور دیا اور حریت پسند رہنما پیدا کیے تو اسی تحریک نے پشتو زبان اور پشتو ادب میں ایک نئی جہت بھی دی، ہفتہ وار’پختون‘ رسالے میں شعرا و ادیبوں کی حوصلہ افزائی کی اور ان کی تحریروں کو شایع کیا،تحریک آزادی میں جہاں جہاں سیاسی طور پر پختونوں کے کردار کا جائزہ لیتے ہیں تو ان بڑے بڑے ناموں میں سیاسی کارکنان کے ساتھ مصنفین بھی تھے مثلا خدائی خدمت گار کے سرگرم کارکن فرنگی سامراج کے مظالم کو ڈراموں کے ذریعے اجاگر کیا کرتے تھے جو پختونوں کے مختلف علاقوں میں اسٹیج ہو اکرتے۔
تحریک آزادی میں امیر حمزہ شنواری بابائے پشتو غزل، معروف محقق و نقاد دوست محمد خان کامل مہمند، علامہ عبدالعلی اخوانزادہ، فضل اکبر احمد غازی، خان میر بلالی، سابق گورنر محمد اسلم خان خٹک، عبدالحلیم، فضل اکبر بے غم، سابق گورنر ارباب سکندرخان خلیل، ارباب خان ارباب، عبدالزاق حکمت، میر احمد صوفی، قمر زمان راہی اور پیر گوہر و پختون حریت پسند ہیں جنھوں نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔حاجی صاحب ترنگزئی، عمرخان ایپ، عبدالغفور کاکاجی اور ملا نج الدین المعروف اڈے ملا صاحب، میاں گل عبدالودود اور سرتور فقیر وغیرہ وہ حریت پسند ہیں۔جنھوں نے انگریزوں کو ناکوں چنے چبوائے۔لیونے فلسفی’غنی خان بابا‘کی اس نظموں نے تو سارے پختونخوا میں ایک دھوم مچا دی تھی۔
یہ صرف تقسیم ہندوستان کے ان چیدہ چیدہ رہنماؤں کا ذکرہے جنھوں نے چودہ اگست 1947کو پاکستان حاصل کیا۔م نہاد قوم پرست اور لسانی جماعتیں پروپیگنڈا کرتی ہیں کہ پاکستان کی آزادی میں پختونوں کا کوئی کردار نہیں تھا جب کہ حقیقت یہی ہے کہ پختونوں کی حریت پسندی کے سبب انگریز ہندوستان سے بھاگنے پر مجبور ہوا۔ 1947میں والئی سوات میاں گل عبدالودود نے پاکستان سے الحاق کی درخواست کی لیکن اسے پاکستان میں انتظامی طور پر شامل نہیں کیا گیا، والی سوات نے پاکستان سے محبت میں 1947میں پاکستان کو جنگی جہاز تحفے میں دیا جس پر میاں گل جہانزیب کا نام لکھا ہوا تھا اور پاکستان کا جھنڈا پرنٹ تھا۔
بلاشبہ پاکستان کے لیے لاکھوں انسانوں نے قربانیاں دیں، لیکن صرف نعرے لگانے سے پاکستان آزاد نہیں ہوا تھا بلکہ برصغیر کی آزادی کے لیے مسلح جدوجہد بھی کی گئی تھی جس کا سہرا پختونوں کے سر بھی جاتا ہے، بعض سیاسی، لسانی اور قوم پرست جماعتوں کے نزدیک پختونوں کا کردار تحریک آزادی سے واجبی سا ہے، لیکن وہ تاریخ سے نا بلد معلوم ہوتے ہیں یا پھر پختونوں کے برصغیر کی آزادی کے لیے قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے شرماتے ہیں۔
سید احمد شہید کی تحریک مجاہدین ہندوستان میں مسلمانوں کی جدوجہد کا ایک درخشندہ باب ہے بعد میں ہر تحریک سید احمد شہید سے متاثر ہوکر سارے ہندوستان میں چلی۔سید احمد شہید کی شہادت کے بعد بھی انگریزوں کے خلاف بچ جانے والے مجاہدین نے سرحدی قبائلی علاقوں میں مورچہ بند ہوکر پہلے سکھوں کے خلاف جدوجہد کی اور پھر 1849 ء میں انگریزوں کے خلاف صوبہ سرحد پر چند غداروں کی وجہ سے قابض ہونے کے باوجود گوریلا جنگ جاری رکھی۔
صوابی کے سیر امیر مشہوربہ کوٹھا بابابجی،ستھانہ اور ملکا کے سادات خاندان بھی مجاہدین صوبہ سرحد میں مجاہدین کے شانہ بہ شانہ لڑے۔ اگر(خیبر پختونخوا) صوبہ سرحد کے لوگ مجاہدین کا ساتھ نہ دیتے تو کیا وہ اپنی تحریک 1947تک جاری رکھ سکتے تھے۔مولاناعبدا لرحیم، قاضی میاں جان، میاں عبد الجعفر تھانسری، شیخ محمد شفیع، مولانا یحییٰ علی کو موت کی سزا دیکر جزائر انڈیمان جلا وطن کیا گیا، 1868میں صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا)کی تاریخ میں پندرہ ہزار پر مشتمل انگریزی فوج نے کالاڈھاکہ (موجودہ تورغر) مہم میں حصہ لیا۔پاکستان تمام لسانی و مذہبی اکائیوں کا مشترکہ وطن ہے، کسی بھی قومیت، لسانی اکائی کی تضیحک دراصل پاکستان کے لئے جان و مال کی قربانی دینے والے آبا و اجداد کی توہین ہے جو کسی کے حق میں بہتر نہیں۔