قائد اعظم نے کشمیر بزور شمشیر آزاد کرانے کا حکم

Quaid e Azam

Quaid e Azam

تحریر: علی عمران شاہین

27 اکتوبر کا دن کشمیری قوم آج بھی ساری دنیا میں یوم سیاہ کے طور پر منا رہی ہے۔یہ وہ دن ہے کہ جب بھارت تے تقسیم ہندکے ترتمام ضابطے اور قوانین روندتے ہوئے سرینگرہوائی اڈے پرفوجیں اتار کرریاست کشمیرپر جبری قبضہ جما لیا تھا۔ یوں بھارت نے برطانوی غلامی سے رہائی اور آزادی پانے کے بعد فورا کشمیریوں کاحق خودارادیت چھین لیا۔کشمیر کے بارے میں انڈیا جتنا راگ الاپے کہ وہ اس کا اٹوٹ انگ ہے لیکن کشمیری قوم کی بھارت کے خلاف جاری لازوال جدوجہد آزادی اس بات کی کھلی گواہ ہے کہ کشمیری آج بھی اسی موقف پر قائم ہیں جو انہوں نے آج سے ٹھیک 67 سال پہلے اپنایا تھا۔

وہ 1947 کا زمانہ تھا۔برطانیہ دوسری جنگ عظیم کے زخموں کی تاب نہ لا کر عالمی وجود کھوتا چلاجا رہا تھا۔ عظیم سلطنت کو اپنے وجود کے لالے پڑ گئے تھے،سو’کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اْتارا کرتے ہیں’کے مصداق برطانیہ نو آبادیوں پر اپنے قبضے ختم کررہا تھا۔ہمارا خطہ بھی اس کی ایک ایسی ہی نو آبادی تھا۔ برطانیہ نے برصغیر سے نکلنے کا فیصلہ تو کیا۔ اس فیصلے کے تحت برطانیہ سے اصول پسندی کا تقاضا یہ تھا کہ وہ حکومت برصغیر کے مسلمانوں کے حوالے کرتا کیونکہ اس نے اقتدار تو ان سے ہی چھینا تھالیکن جہاںخطے کی ہندو اکثریت نے انگریز کی کاسہ لیسی اور جی حضوری کر کے برطانیہ کواپنا حامی بنا لیا تھا

وہیںبرطانیہ خود بھی نہیں چاہتا تھا کہ اتنے بڑے علاقے پر مسلمان ایک بار بھر حکومت سنبھال لیں، اس لئے دونوں نے مل کر مسلما نو ں کو دیوار سے لگانے کا فیصلہ ہی کرلیا تھا جو ان کے فیصلوں سے صاف نظر آرہاتھا۔جمہوری فارمولے یعنی اکثریت کے بہانے انگریز بھی راستہ پکا کر چکے تھے ۔سو مسلمانوں نے صورتحال کو بھاپنتے ہوئے مذہب کی بنیاد پر الگ ملک کا مطالبہ شروع کر دیا۔یوں تقسیم کا بنیادی اصول یہ طے پایا تھا کہ خطہ دوقومی مذہبی نظریے کے تحت تقسیم کر دیا جائے۔

وہ علاقے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے پاکستان جبکہ ہندو اکثریتی علاقے بھارت کا حصہ ہوں گے۔ اس وقت ہند 582 ریاستوں پر مشتمل تھا جن میں چندہی مسلم اکثریتی تھیں۔اس اصول کے تحت ہندو ریاستیں بھارت اور جبکہ مسلم اکثریتی ریاستیں پاکستان کا حصہ بن گئیںلیکن تین ریاستوں جموں کشمیر، جونا گڑھ مناوادر اور حیدرا باد دکن میں صورت حال کچھ مختلف تھی۔جموں کشمیر میں اکثریت مسلمان تھی لیکن حکمران ہندو تھا۔حیدرآباد اور جوناگڑھ کے حکمران مسلمان لیکن اکثریتی آبادی ہندوتھی۔حیدرآباد کے نواب نے خود مختاری کا اعلان کیا لیکن بھارت نے اسے عوامی رائے کے خلاف قرار دے اس پر قبضہ کر لیا۔ جوناگڑھ کے حکمران نے پاکستان سے الحاق کا اعلان کیاتو اس پر بھی بھارت کا ردعمل یہی تھا۔

اسے تقسیم ہند کے راہنما اصول کی خلاف ورزی قرار دے کر فوج کشی کر کے ساتھ ملا لیا گیا۔لیکن جموں کشمیر پر سارے پیمانے بدل گئے۔بھارت نے مہاراجہ ہری سنگھ کے نام سے پیش کردہ دستاویز الحاق کو بنیاد بنا کر سرینگر میں اپنی فوج اتار دی۔اس سے پہلے وائسرائے ہند لارڈ مائونٹ بیٹن نے بھی ایک چال کے تحت مہاراجہ ہری سنگھسے کہا تھا کہ وہ ریاست کے مستقبل کا فیصلہ کرنے سے پہلیعوام سے بھی مشورہ کریں اوراسی رائے پر عمل کیا جائے جسے عوام بہتر سمجھیں۔یوں ایک مکاری کے تحتمہاراجہ نے اس کے لئے ریفرنڈم کی تجویز دی جو پوری نہ ہو سکی کیونکہ کشمیر پر انگریز اور ہندو ساز باز سے درون خانہ معاملات طے کر چکے تھے۔

Pakistan

Pakistan

اس کی دلیل اس بات سے بھی ملتی ہے کہ جنوری 1947ء میں جو ریاستی اسمبلی کے انتخابات ہوئے تھے، ان میں آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس نے مسلمانوں کیمختص 21 میں سے 16 نشستیں جیت کرغالب مسلم اکثریت کی واحد نمائندہ پارٹی کا مقام حاصل کر لیا تھا۔اس کے بعداسی پارٹی نے 19 جولائی 1947 ء کو اپنی جنرل کونسل کی ایک قرارداد کے ذریعے ریاست کے پاکستان سے الحاق کا مطالبہ کیا۔ جمہوریت کے دعویدار آج بھی پر خاموش ہیں کہ یہ قرارداداس عوامی فیصلے کی حیثیت رکھتی ہے جس کی تجویز مائو نٹ بیٹن نے دی تھی ۔لیکن چونکہ یہی طے تھا کہ کشمیر کو ہرصورت بھارت کے ہی حوالے کرنا ہیسو کسی بات کی پرواہ نہیں کی گئی۔

جب ہر طرف سے بات کھل صاف سامنے آگئی کہ جموں و کشمیر کسی صورت پاکستان کو نہیں ملے گاکیوںکہ اس کے ذریعے پاکستان کو ہمیشہ کے لئے بھارت کا دست نگر بنانا تھا تو چاروناچارمسلح قبائلی دستوںاور آج آزاد کشمیر کہلانے والے خطے کے عوام نے ڈوگرہ حکمران کے خلاف جہاد کا آغاز کیا۔یہ جنگ کئی ہفتے جاری رہی۔ برسرپیکار عوام آگے بڑھتے چلے گئے جبکہ قبائل گڑھی مظفر آباد میں داخل ہو کر چکوٹھی کے راستے سری نگر کی جانب چلتیگئے۔ قبائلی لشکر جب بارہ مولہ پہنچا تو مہاراجہ نے سرینگر سیبھاگ کر جموں میں پناہ لی۔

24 اکتوبر1947کو سردار محمد ابراہیم خان کی سربراہی میں جنیل ہل کے مقام پر آزاد کردہ علاقے کی لگ اور انقلابی حکومت قائم کیگئی جو پوری ریاست جموںکشمیر کی نمائندہ اور ڈوگرہ حکومت کا متبادل تھی۔ اس حکومت کا نام ریاست آزاد جموں و کشمیر رکھا گیاجس کا مقصد پوری ریاست کی آزادی قرار پایا۔

سرینگر سے مفرور مہاراجہ نے بھارت سے کشمیر میں اپنی فوج بھیجنے کی درخواست کی ۔یوں 27 اکتوبر1947 کو بھارتی فوجیں سرینگر ائیر پورٹ پر اتر گئیں اور جنت نظیر خطہ کشمیر گھٹا ٹوپ اندھیروںمیں گم ہو کر جہنم زاربن گیا۔ بھارتی فوج نے سرینگرکاکنٹرول سنبھالنے کے بعد چن چن کر بھارت مخالف سیاسی کارکنوں کو گرفتار اورشہیدکرنا شروع کیا۔

بانی پاکستان محمد علی جناح نے اس وقت کے اپنی فوج کے سربراہ جنرل ڈگلس گریسی کو حکم دیاکہکشمیر آزاد کرانے کے لئے پاک فوج کشمیر میں داخل کریں ۔لیکن چونکہ انگریز جنرل اصل کہانی سے بخوبی واقف تھا اس لئے اس نے بہانے بازی کر کے وقت ٹالنا شروع کر دیا ۔لیکن اس حکم نے ایک بات تو واضح کر دی کہ بانی پاکستان کا کشمیر کے بارے میں فیصلہ کیا تھا ؟افسوس صد افسوس کہ اس فیصلے کو آج تک ہمارے ارباب حل عقد کبھی نہ سمجھ سکے۔ بھارتی فوجیںاس اعلان کے ساتھ کشمیر آئی تھیں کہ وہ حالات بہتر ہوتے ہی واپس چلی جائیں گی اور کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیاجائیگا،سو قبائلی لشکر بارہ مولا سے واپس چلاآیا۔

ریاست میں امن بحال ہواتو بھارت نے اپنا وعدہ پورا کرنیکے بجائے کشمیر کومکمل ضم کرنے کی کوشش شروع کیجس پر کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان باقاعدہ جنگ شروع ہوگئی اور مسئلہ کشمیرگھمبیر ہوتا گیا۔بھارت خود اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں لے کر گیا جہاں مسئلے پر بحث و تمحیصکا آغاز ہوا۔ اقوام متحدہ نے اس حوالے سیجو قراردادیںپاس کیں، ان کا لب لباب بھی کشمیر میں رائے شماری ہی تھا۔ 13 اگست 1948 اور 5 جنوری 1949 کی قراردادوں میں استصواب رائے کا حق بالکل واضح ہے جسے بھارت اور پاکستان نے تسلیم کیا۔

بعد میں ان قراردادوں پر عمل درآمد کے امکانات کا جائزہ لینے کے لیے اقوام متحدہ کے کمیشن قائم ہوتے اور علاقے کا دورہ کرتے رہے۔اقوام متحدہ کی ایوانوں میں بھارت کے حکمرانوں اور سفارت کاروں کے بیانات ، اقوام متحدہ کے کمیشنوں کے سربراہوں کے نام خطوط ،انٹرویوزو بیانات وغیرہ سب کچھ یکارڈ پر موجود ہیجن میں کشمیر کو حل طلب مسئلہ اور الحاق کو عارضی تسلیم کیا گیا ۔اس سب کے باوجود آج بھی بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے اور ڈھٹائی سے کہتا ہے کہ کشمیراس کا اٹوٹ انگ ہے۔

حیرانی تو اس بات پر ہوتی ہے کہ مسلمانوں کے ملک انڈویشیا کو توڑ کر مشرقی تیمور اور سوڈان کو توڑ کر جنوبی سوڈان کے نام سے الگ تھلگ آزاد عیسائی ملک بنا دئیے گئے لیکن کشمیری قوم جو آزادی کے حصول کے دنیا میں قائم ہر ضابطے اور قاعدے پرہزار بار بھی پورا اترتی ہے ،اس کی جانب کسی کی نگاہ بھی نہیں اٹھتی کیونکہ ان جرم صرف اور صرف مسلمان ہونا ہے۔
کشمیر ی قوم کا آج بھی ہر سال 27 اکتوبر کوبھارتی قبضے کے خلاف متفقہ طور پر ساری دنیا میں یوم سیاہ منانا اس بات کی سب سے بڑی اور کھلی دلیل ہے کہ کشمیری قوم ہر لحاظ سے بھارت سے صرف آزادی چاہتی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کی یہ منزل انہیں کب ملتی ہے جس کے لئے وہ آج بھی خون سے چراغ روشن کرکے آگے بڑھ رہے ہیں۔

Ali Imran Shaheen

Ali Imran Shaheen

تحریر: علی عمران شاہین