سلاطین آل سلجوق علم و فضل کے قدردان تھے ان کی کامیابی کی بنیادی وجہ بھی یہی تھی کہ وہ شہنشاہوں جیسے دربار نہ تو لگاتے اور نہ ہی سجاتے تھے اس لیے وہ خوشامدیوں اور درباریوں کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے تھے ۔ان کے فیصلے دوٹوک اور اٹل ہوتے تھے ۔خوشامدیوں اور درباریوں کی ضرورت ہمیشہ سے وقت کے فراعین ،ظالم راجائوں اور مہاراجائوں کو رہتی ہے ۔تاریخ کی اوراق کا اگر بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ بڑی بڑی سلطنتیںخوشامدیوں اور درباریوں کی بدولت تباہی سے دوچارہوئیں اسکی متعددزندہ مثالیں تاریخ کے اوراق پر بکھری پڑی ہیں۔ سلطان چغرابیگ نے خواجہ حسن طوسی سے پوچھا کہ حکمران میں کیا صفات و کیسے اوصاف ہونے چاہیے کہ رعایا میں ہر دل عزیز ہو اس کے مرنے کے بعد بھی لوگ اسے اچھے الفاظ سے یاد کریں۔۔
اس کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ وہ ”وہ دین اور سلطنت کے لیے آگ کا طوفان ہو’رعایا کے لیے پانی ‘زمین کی طرح فیاض ‘آسمان کی طرح مربی ‘عقاب کی مانند تیز نگاہ ‘کوے کی طرح محتاط، کوئل کی طرح خوش گلو ‘شیر کی طرح بے خوف اور چاند ستاروں کی مانند راست روہو”خواجہ حسن طوسی کے اس تاریخی جواب اور صاف گوئی نے انہیں خواجہ حسن طوسی سے تاریخ کی ان مٹ شخصیت سے “نظام الملک “کے طور پر سامنے لاکھڑا کیا سلجوق سلطانوں نے آپ کو”نظام الملک ”کے خطاب سے نوازا اہل علم کی قدر دانی کا ہی فیض تھا کہ ”نظام الملک ”سلطنت سلجوقیہ کے وزیر اعظم بنے ۔بدقسمتی سے وطن عزیز میں نہ تو کوئی ایسا حکمران ہے جو علم کا طالب ہو جو اخلاقی قدروں سے روشناس ہو سکتا اور نہ ہی ان کے اندر اخلاقی قدریں ہیں جن کے باعث قوم کے اندر قومیت آسکتی علاوہ ازیں یہ بات بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ آج تک کسی حکمران کے اندر اتنی اخلاقی جرات نہیں کہ وہ حق اور سچ کا سامنا کر سکے۔
لہذا میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ اس گئے گزرے دور میں جہاں انسانی قدروں کی کمی اور انسانیت اپنا دم توڑتی جا رہی ہووہاں اوریا مقبول جان جیسی مفکر اور زیرک شخصیت اس بات کی حق دار ہے کہ ایسا بحر العلم ملک کا سرپرست ہوتا کہ ان کے زیر سایہ ملک اپنی اس منزل کو پا سکتا جس کا خواب حضرت اقبال اور حضرت قائد اعظم نے دیکھا تھا وہ قلم ہو یا گفتووشنید ‘ شعائر اسلام اور ختم نبوت ۖۖ کے تحفظ کے لیے جتنا کام انہوں نے کیا ہے ۔گذشتہ 75 برسوں میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ایک مرتبہ جب اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سابق صدر سید ممنون حسین نے پاکستان کے علماء ومشائخ کو بڑے خوش گوار موڈ میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ وہ سود کے معاملہ میں گنجائش نکالیں تو اس کے جواب میں اوریا مقبول جان نے وہ کام کیا جس کی یقینا آئینی ومذہبی ذمہ داری علما ومشائخ کی تھی مگر علماء اکرام وعظام نے غالباًاس لیے چپ سادھ لی کہ اس کام میں انہیں خاطر خواہ کوئی ذاتی ومالی فائدہ دیکھائی نہ دیا لیکن اس کے برعکس ”جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا”کہ مصداق اس مرد قلندر اور اللہ کے سپاہی نے قلم اور زبان بمعنی دو دھاری تلوار کا کام کرتے ہوئے اس سودی نظام کے خلاف باقاعدہ جنگ لڑی جو اللہ کے بندوں ‘مجاہدوں اور غازیوں کی روایت ہے۔
اسے میری خوش بختی سمجھ لیجئے کہ اوریا مقبول جان سے میری نظریاتی اساسوں پر دلی وابستگی کوئی آج کی بات نہیں بلکہ(سات سالوں پر محیط) درینہ ہے جس کے باعث میرے اندر باطل کے سامنے حق کہنے کا حوصلہ پیدا ہوا اور انکی تحاریروجذبے کو سامنے رکھ کر میں نے خود کو ایک کوہستان کی مانند پایا ان کے ساتھ میری والہانہ محبت کی ابتدااس وقت ہوئی جب دین سے بیزار’ملحد’سیکولراور روشن خیال افراد کے خلاف انہوں نے ” علّم”بلند کیا اور ان مندرجہ بالا افراد کو انکے خلاف یکجا ہوتے دیکھا مگر ان سب کے باوجود اوریا مقبول جا ن کے پایہ استقلال میں ذرہ برابر بھی لرزش پیدا نہ ہوئی تو میرے دل نے یہ گواہی دی کہ یقینا یہ وہی خواجہ حسن طوسی ہیں جنہیں متفقہ طورپر ”نظام الملک”کا خطاب دیا گیا۔
میرے اور مجھ جیسے لاکھوں افراد کی نگاہ میں آپ ”اسلام کے سپاہی اور سچے شیدائی ”ہیں آپ جیسے مردمجاہد سے جدید دور کے خود ساختہ دانشور اس لیے خائف ہیں کہ آپ ارض پاکستان کے فرسودہ اور ناکام ترین جمہوری نظام کی بات ببانگ دہل کرتے ہیں جو حکمرانوں اور ان نام نہاد خود ساختہ دانشوروں کے طبیعت پر گراں گرزتی ہے ایک مومن کی شان بھی یہی کہ اس کا نام سن کر منکرین اورکفار پر ہیبت طاری ہو ۔اوریامقبول جان ایک سچے عاشق رسولۖ ہیں جن کی ہر بات نبی رحمت ۖ کی حدیث پاک سے شروع ہوتی ہے اور حدیث پاک پر ہی ختم ہوتی ہے۔
یہ شخص مجاہد ختم نبوت ہے جس نے ہمیشہ نبیۖ اور صحابہ کرام کے دشمنوں کے خلاف اپنی آواز کو بلند کیا اور قلم اٹھائی ہے اور تحفظ ختم نبوت پر زندگی فدا کر دینا زندگی کا بہترین استعمال ہے۔اس کام کی فضیلت اس قدر ہے کہ علماء کرام کا اتفاق ہے کہ جو شخص اس بات کا خواہش مند ہو کہ وہ سیدنا محمد عربی ۖ کی ذاتی خدمت کرنا چاہے تو وہ ختم نبوت کے تحفظ کا کام کرے اور یہ بڑے نصیب کی بات ہے۔ مجھ جیسا گناہگار تو ایسے عاشق رسولۖ کے جوتے کو بھی اپنے سر کا تاج بنانا اپنے لیے باعث سعادت سمجھتا ہے ۔ اس شخص نے فتنہ قادیانیت کے خاتمہ کے لیے ہمیشہ طبل جنگ بجایا ہے جہاں پر بڑے بڑے علمائے کرام وعظام خاموشی اختیار کرلیتے ہیں میں نے وہاںپر اس مرد حق کو گرجتے دیکھا ہے ۔یہ شخص قلم اور زبان کے ذریعے جہاد افضل کررہا ہے ۔میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس عاشق رسولۖ کی حفاطت فرمائے اور ان سے مزید خیر وبرکت کا کام لے آمین ۔اوریا مقبول جان صاحب معذرت آپ تو”نظام الملک”ہیں بھی اور اس خطاب کے حق دار بھی مگر یہ سلطنت سلجوقیہ نہیں۔۔۔