برٹرینڈرسل نے یہ سوال اٹھایا کہ”یہ کیونکر ممکن ہے کہ انسان، جس کا دنیا سے واسطہ مختصراًذاتی اور محدود ہوتا ہے،اتنا کچھ جاننے کی اہلیت رکھتا ہے جتنا کہ وہ جانتا ہے؟”رسل کا مطلب یہ تھا کہ اس حقیقت کے باوجود کہ انسان کی زندگی اوسطاً ساٹھ یا ستر سال سے زیادہ نہیں ہوتی،ہر شخص بہت زیادہ معلومات کا حامل ہوتا ہے۔رسل کے اس سوال کی پوری معنویت صرف ایسے شخص کی سمجھ میں آسکتی ہے جس نے کمپیوٹر میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرنے کی کوشش کو ہو۔جدید ماہر لسانیات رسل کے سوال کا جواب دے سکتے ہیں۔مشہور ماہر لسانیات اور فلسفی،نوم چومسکی کے بقول”ہم جتنا کچھ جانتے ہیں، وہ اس لیے جانتے ہیں کہ ہم جاننے کے لیے ہی پیدا ہوئے ہیں”۔وہ کافی ثبوت کے ساتھ یہ کہتا ہے کہ انسان قوت ناطقہ کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔حیاتیاتی ارتقا کے نتیجہ میں ناطق یا عاقل انسان وجود میں آیا ہے۔اس مخلوق کے دماغ کی ساخت ایسی ہے کہ وہ غور و فکر کرسکتا ہے۔گویا وہ ایک پیچیدہ بغیر تار کا کمپیوٹر ہے۔جسے شناختی اور تحقیقی عمل کے لیے صرف خارجی محرکات کی ضرورت ہوتی ہے۔قوت ناطقہ انسان کے دماغ کی صلاحیت اور ادراک کا آئینہ ہے۔ نوم چومسکی نے جو آفاقی انسانی گرامر دریافت کی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانوں کی فکر اور اسالیب آفاقی ہیں۔اس طرح ترقی کے جغرافیائی اور نسلی نظریات باطل ثابت ہوگئے ہیں۔اور نوع انسانی کی وحدت ثابت ہو گئی ہے۔انسانی دماغ کی استدلال اور تجزیاتی صلاحیتوں کا مطلب ہی یہ تھا کہ جلد یا بدیر سائنس وجود میں آئے گی۔ان گنت ایسے دور گزرے ہیں جبکہ علم نام کی کوئی چیز نہیں تھی اور ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں بھی ایسے ہی کئی زمانے گزرنے والے ہوں۔اگر کائناتی پیمانے سے ناپا جائے تو علم اور سائنس صرف چند ہی روز پرانے ہیں۔یہ محض اتفاق ہے کہ سائنس کی ابتدا گزشتہ چند ہزار سال پہلے ہوئی تھی اور یورپ کے خطے میں جدید سائنس نے چار سوسال پہلے جنم لیا ہے۔لہذا کسی ایک ثقافت کو سائنس کا مسکن اور منبع کہنا ٹھیک نہیں ہوگا۔حقیقت یہ ہے کہ سائنس تمام بنی نوع انسان کی ذہنی ملکیت ہے اور یہ عالمی ثقافت کا ایک حصہ ہے۔
یہاں ایک سوال ضمناً پیدا ہوتا ہے کیا تاریخی طور پر ہمیشہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں زیادہ ترقی یافتہ اقوام ہی اپنے سے کم تر اقوام پر غالب آئی ہیں؟ جس وقت تاتاریوں نے خلافت عباسیہ کے پایہ تخت بغداد کو تاراج کیا، کیا وہ سائنسی طور پر مسلمانوں سے زیادہ ترقی یافتہ تھے؟ کیا جب مسلمان روم و فارس کی سلطنتوں کو مسخر کر رہے تھے اس وقت ان کے ہر گھر میں ایک ایک نیوٹن اور آئنسٹائن ہوا کرتا تھا؟ کیا جس وقت تاج برطانیہ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے ہندوستان میں اپنے قدم جمانے شروع کیے، برطانوی معیشت جہانگیر اور شاہجہاں کی معیشت سے زیادہ مضبوط تھی؟ برطانیہ میں صنعتی انقلاب کی ابتداء عموماً 1760 سے تسلیم کی جاتی ہے، جبکہ صحیح معنوں میں اس کی بلوغت 1781 کے بعد ہوتی ہے ۔جب جیمز واٹ، تھامس نیوکامن کے بھاپی انجن کا زیادہ قابل عمل ورڑن تیار کرتا ہے۔
دلچسب بات مگر یہ ہے کہ برطانیہ ہندوستان پر اپنا قبضہ 1780میں ہی کمپنی بہادر کے ذریعے ٹیپوسلطان کی شکست کے بعد مستحکم کرچکا تھا۔ سن 1612 میں مغل شہنشاہ جہانگیر کے دربار سے تجارت کے لائسنس کے حصول کے بعد ہندوستان کی مضبوط معیشت سے کشید کردہ دولت کے بل بوتے ہی برطانیہ کی نیوٹونین سوسائٹی قائم ہو سکی تھی۔وہیں ویت نام اور امریکہ کی جنگ میں امریکہ کی تمام تر عسکری قوت اور ٹیکنالوجی کی برتری اسے شکست سے نہ بچاسکی۔یہ ایک تاریخی سوال ہے جس پر کئی آراہو سکتی ہیں جن کے درمیان صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنا مشکل ترین ہے، تاہم تاریخ کے مطالعے سے ایک بات واضح ہے کہ محض سائنسی برتری ہی کسی قوم کے غلبہ حاصل کرنے کا واحد ذریعہ نہیں رہی ۔ہمارے خیال میں مسلمانوں کے زوال پذیر ہونے میں ان کی سائنسی کمزوری سے زیادہ ان کی اخلاقی پستی اور عقیدہ کے کمزوری کا کردار رہا ہے۔ چھوٹے چھوٹے ذاتی فوائد کے لئے غداریوں کی ایک طویل داستان ہے ۔ فرڈینینڈ اور ازابیلا امیرغرناطہ ابوعبداللہ محمد دوازدھم پر کوئی خاص سائنسی برتری نہیں رکھتے تھے، اور طارق بن زیاد کے پاس وزیگوتھک راڈرک کے مقابلے میں کوئی نیوکلیئر ہتھیار نہیں تھے۔یہ غداریاں ہر دو سطح پر آج بھی موجود ہیں پھر کیونکر ہم یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ صرف سائنسی ترقی کے سہارے ہمیں دنیا قبول کرلے گی اور دنیا کی باگ دوڑ ایک بار پھر ہمارے ہاتھ میں آجائے گی؟
گفتگو کے پس منظر میں جب ہم قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ پر سرسری نگاہ ڈالتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور ان کی بدکاریوں ونافرمانیوں کا جائزہ لیتے ہیں توٹھیک یہی بات واضح ہوتی ہے کہ چاہے گزشتہ اقوام ہوں یا موجود دور کی قومیں اگر وہ ناکام و نامراد ہوئیںیا زوال پذیر ہوئیں تو وہ اپنی اخلاقی پستی کے نتیجہ میں ہی ناکام ونامرادہوئیں ہیں۔جن انبیاء کرام کا قرآن میں تذکرہ ہے ان کے تذکرے کے ساتھ ہی ان کی قوموں کا تذکرہ بھی ہے۔چند کا تذکرہ گزشتہ مضمون میں گزرچکا ہے اورصرف ایک قوم جس کا تعلق حضرت شعیب علیہ السلام سے تھاکا تذکرہ اس مضمون میں کیا جا رہا ہے۔قرآن حکیم میں اس قوم کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:”اور مَدین والوں کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیب کو بھیجا۔ اس نے کہا” اے برادرانِ قوم، اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے۔ تمہارے پاس تمہارے ربّ کی صاف رہنمائی آگئی ہے، لہٰذا وزن اور پیمانے پورے کرو، لوگوں کو ان کی چیزوں میں گھاٹا نہ دو، اور زمین میں فساد برپا نہ کرو جب کہ اس کی اصلاح ہو چکی ہے، اسی میں تمہاری بھلائی ہے اگر تم واقعی مومن ہو۔اور زندگی کے ہر راستے پر رہزن بن کر نہ بیٹھ جائو کہ لوگوں کو خوف زدہ کرنے اور ایمان لانے والوں کو خدا کے راستے سے روکنے لگو اور سیدھی راہ کو ٹیڑھا کرنے کے درپے ہوجائو۔ یاد کرو وہ زمانہ جبکہ تم تھوڑے تھے پھر اللہ نے تمہیں بہت کر دیا ، اور آنکھیں کھول کر دیکھو کہ دنیا میں مفسدوں کا کیا انجام ہوا ہے۔
اگر تم میں سے ایک گروہ اس تعلیم پر جس کے ساتھ بھیجا گیا ہوں، ایمان لاتا ہے اور دوسرا ایمان نہیں لاتا ، تو صبر کے ساتھ دیکھتے رہو یہاں تک کہ اللہ ہمارے درمیان فیصلہ کر دے، اور وہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے”۔اس کی قوم کے سرداروں نے ، جو اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا تھے، اس سے کہا کہ”اے شعیب ، ہم تجھے اور ان لوگوں کو جو تیرے ساتھ ایمان لائے ہیں اپنی بستی سے نکال دیں گے ورنہ تم لوگوں کو ہماری مِلّت میں واپس آنا ہوگا”۔شعیب نے جواب دیا، ” کیا زبردستی ہمیں پھیرا جائے گا خواہ ہم راضی نہ ہوں؟ ہم اللہ پر جھوٹ گھڑنے والے ہوں گے اگر تمہاری مِلّت میں پلٹ آئیں جبکہ اللہ ہمیں اس سے نجات دے چکا ہے۔
ہمارے لیے تو اس کی طرف پلٹنا اب کسی طرح ممکن نہیں اِلّا یہ کہ خدا ہمارا ربّ ہی ایسا چاہے ،ہمارے ربّ کا علم ہر چیز پر حاوی ہے، اسی پر ہم نے اعتماد کر لیا۔ اے ربّ! ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر دے اور تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے”۔اس کی قوم کے سرداروں نے ، جو اس کی بات ماننے سے انکار کر چکے تھے، آپس میں کہا”اگر تم نے شعیب کی پیروی قبول کرلی تو برباد ہو جائوگے”۔مگر ہوا یہ کہ ایک دہلا دینے والی آفت نے ان کو آلیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے کے اوندھے پڑے کے پڑے رہ گئے۔ جن لوگوں نے شعیب کوجھٹلایا وہ ایسے مٹے کہ گویا کبھی ان گھروں میں بسے ہی نہ تھے(الاعراف:84تا91)۔یہ ہے وہ ترقی و ارتقاء اور ناکامی و کامیابی کے درمیان سے گزرنے والی شاہراہ جسے جب جب پچھلی قومو ں نے نظرانداز کیا تو وہ ناکام و نامراد ہوئے اور آج جب دورجدید کی موجود ہ قومیں اسے نظر انداز کررہی ہیں تو ان کے لیے تباہی و نامرادی لکھی جاچکی ہے۔لیکن کیا موجود ہ دور کا مسلمان اُن سے کچھ الگ ہے؟کیا آپ اور ہم ان سے الگ ہیں جن کی ناکامی کا مژدہ ہماری زبان پر جاری و ساری رہتا ہے!