تحریر : انجینئر افتخار چودھری اللہ رب العزت ہم سے صرف ہمارے اعمال کا پوچھے گا اس نے یہ سوال کبھی نہیں کرنا کہ تم کامیاب کیوں نہیں ہوئے وہ صرف ہم سے ہمارے بارے میں پوچھے گا یہ سنہری الفاظ وقت کے زعیم نے ان نوجوانوں سے کہے جو ان سے شکوہ کرنے آئے تھے کہ آپ نے یوم شوکت اسلام منایا دنیا ساتھ تھی گروہ در گروہ شریک ہوئے اور نتیجہ یہ نکلا ہے کہ چار سیٹیں ملی ہیں یہ الفاظ سید مودودی کے تھے اور ان جوانوں کے لئے تھے جو ستر کے انتحابات میں جماعت اسلامی کی کارکردگی پر سوال اٹھا رہے تھے۔اسے این اے ١٢٠ کے تناظر میں نہ دیکھا جائے وہاں تو کوشش اقامت دین کے لئے تھی اور یہاں نیت مقاصد کچھ اور تھے۔میرے کہنے کا مقصد ہے کہ ہمیں اپنے تئیں اس معاشرے اور اس سماج کو بدلنے کے لئے اپنے تئیں کوشش کرنا ہو گی۔مجھے سچی بات ہے اس بات کا شدید دکھ ہے کہ میں آج اپنے سامنے بڑی چھوٹی اور درمیانی برائیاں دیکھتا ہوں اور منہ موڑلیتا ہوں مجھے تو حکم ہے کہ میں جہاں کہیں غلط ہو رہا ہو وہاں اسے اپنے ہاتھ سے روکوں ہاتھ سے نہ روک سکوں تو زبان سے اور زبان سے نا ممکن ہو تو دل میں برا چاہوں۔میں دوسرا راستے کا مسافر ہوں میں نے اپنے قلم کو اپنی زبان بنا لیا ہے اور سچ مزید پوچھیں مجھے آج وہاں ہونا چاہئے تھا جہاں خادم حسین رضوی بیٹھے ہیں اور تاجدار ختم نبوت کی خاطر مجھے اس سردی میں موجود ہونا چاہئے تھا۔شائد وقت کے ساتھ ساتھ میں بزدل ہو گیا ہوں مجھے ١٩٧٤ کا وہ دن یاد ہے۔
جب باغبانپورہ محلے کے راجباہ کے پل سے گرفتار کیا گیا تھا نارنجی سوٹ ہونے کی وجہ سے ظالم اے سی نے مجھے پہچان لیا تھا مجھے پولیس کے مسٹنڈوں نے اٹھا کر جیپ میں ڈال لیا تھا ارائیوں کا فاروقا میرے ساتھ بیٹھ گیا ارشد بھٹی کھسک گیا اس رات باغبانپورہ چوکی گھنٹہ گھر میں میری دھلائی ہوئی ۔یہ مار کارکن ختم نبوتۖ کی وجہ سے ہوئی میری جیب تلاشی کے بعد مجھے تھانہ سٹی بھیج دیا گیا جہاں رات ایک لکڑی کے بکسے کے اوپر گزاری اگلے روز پیپلز پارٹی کے شیخ اکرام اور نور الہی مجھے سعید چھرے سے چھڑا کر لے گئے میری ماں ان کے دروازے پر گئی اور ایک روز کی مار کٹائی دھنائی کے بعد میرے شرف میں اور میرے نصیب میں آقائے نامدار کی غلامی لکھ دی گئی شائد وہ چند گھنٹے اور چند ڈنڈے تھپڑ آخرت کا توشہ بن گئے ہوں ۔لیکن اس بار بھی ختم نبوت پر حملہ ہوا بڑی چالاکی اور ہشیاری سے ایک ایسا کھیل کھیلنے کی کوشش کی گئی جس سے قادیانیوں کو ریلیف مل سکتا تھا۔حیرت ہے ایک جانب مرزا غلام احمد قادیاں اپنی کتابوں میں لکھتا ہے کہ جو مجھ پر ایمان نہیں لاتا وہ کافر ہے کسی قحبہ اور رنڈی کی اولاد ہے اور دوسری جانب وہ کافر اسے غیر مسلمان کہتے ہیں تو پوری دنیا میں چیختا ہے چلاتا ہے۔
پاکستان کے لوگو! تحریک ختم نبوت کوئی ایک دن کا رونا نہیں ایک دن کی کوشش اور جد وجہد نہیں ١٩٠٣ سے ہی جب ایک شخص نے اپنے آپ کو مسیح موعود اور نبی کہلوانے کا دعوی کیا تو ابنائے اسلام اس فتنے کے خلاف کھڑے ہو گئے ایک مسیلمہ کذاب اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔ان جھوٹے نبیوں کے خلاف آپ کو یاد ہو گا کہ ایک لشکر رسول ۖ کے دور میں تخلیق ہوا تھا کہ اس جھوٹے نبی کی سرکوبی کریں اس دوران اللہ کے پیارے نبی اللہ کو پیارے ہوئے تو خلیفہ وقت کو مشورہ دیا گیا کہ لشکر روک دیا جائے ۔ان کا فرمان جاری ہوا جو لشکر آقاۖ نے روانہ کیا اسے صدیق نہیں روکے گا۔یہ اتباع خلیفہ ء اول ہے کہ ان گماشتوں کی سرکوبی کے لئے نکلا جائے۔ اس قافلے میں شامل ہوا جائے جو اللہ کے پیارے نبیۖ کی شان بلند کرنے والا ہو۔مطالبہ بھی کیا چھوٹا ہے کہ صرف اس شخص کو اقتتدار سے باہر کرو جس نے یہ ترمیم پاس کرائی۔اور کیا خوب بات کی گئی کہ چور اگر چوری کا مال واپس کر دے تو کیا اسے چھوڑ دیاجائے گا یہاں تو آقائے نامدار کی ختم نبوت ۖ کی شان کو چرانے کی بات ہوئی۔میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ اگر وہ ہمیں نہیں مانتے تو اس پر انہیں کیوں اعتراض ہے جب ہم انہیں غیر مسلمان گردانتے ہیں۔تحریک ختم نبوت میں قربانیاں دینے والوں کی تعداد سینکڑوں میں نہیں ہزاروں میں ہیں جو ٥٣ میں لاہور میں شہید ہوئے ان کی تعداد دس ہزار سے زائد ہے باقی وقتا فوقتا جو کوششیں ہوتی رہیں اس راستے پر جانے والے بھی ان گنت ہیں خود سید مودودی کو پھانسی کی سزا سنائی گئی جو بعد میں معاف ہوئی۔
اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں میدان میں کیوں نہیں اترتیں۔سیدھا اور سادہ سا جواب ہے کہ حضور مولانا خادم حسین رضوی کے ساتھ جو لوگ ہیں کیا وہ وہ صرف تحریک لبیک یا رسول اللہۖ کے لوگ ہیں۔ہر گز نہیں اس میں ہر پارٹی کا وہ کارکن شامل ہے جسے اللہ نے اس عظیم کام کے لئے چن لیا ہے۔قوم ١٩٧٤ میں اکٹھی ہو کر ایک مٹھی کی صورت بنی مولانا شاہ احمد نورانی مفتی محمود سید مودودی احتشام الحق تھانوی سب شامل تھے وہاں کسی نے مسلک کی بات نہیں کی۔ہاں اس بار ایک شخص غائب ہے اس کی عدم شرکت ایک سوال بنی ہوئی ہے اور اللہ بھی بڑا بے نیاز ہے کہ عمامے والی یہ شخصیت جو نام کے ساتھ مولانا لکھواتی ہے ترمیم والے دنوں میں غلاف کعبہ کی اوڑھ میں چھپ گئی یہ پہلی بار نہیں ہوا تھا اس سے پہلے لال مسجد آپریشن کے وقت بھی حضرت غائب تھے اور جب مشرف کے خلاف فیصلہ کن معرکہ آیا تو اس وقت بھی مکہ مکرمہ میں جا چھپے ۔
مولانا کہ کہہ مکرنیوں کو مدارس کے بھولے بھالے طلبہ کو یہ کہہ کر مطمئن کرا دیا جاتا ہے کہ سیاست دانوں کے ساتھ سیاست کرنا کوئی بری بات نہیں۔اہل مدرسہ کو کسی نے یہ نہیں بتایا کہ کہ اللہ کے رسولۖ نے کبھی دو چہرے نہیں رکھے ان کا ظاہر اور ان باطن ایک ہی رہا۔ کسی کو بھی یہ یاد بھی نہیں کہ جب الطاف ھسین نے لال مسجد کو آگ لگانے کی بات کی اور جب پرویز رشید نے ان مدارس کو جہالت کی یونیورسٹیاں کہا تو پی ٹی آئی نے اس کی شدید مذمت کی۔کے پی کے میں ہمارے اقدامت سب کے سامنے ہیں۔عقیدہ ء ختم نبتۖ پر عمران خان کا ایمان واضح ہے۔ہاں اگر ذاتی حیثیت میں اس قافلے میں شامل ہوتے تو اللہ ان سے راضی ہوتا لیکن یہ بھی تو سامنے ہے کہ ان کی پارٹی کے لوگ قافلہ ء ختم نبوتۖ میں ایک ادنی کارکن کی حیثیت سے شامل ہیں۔یہ تو اللہ کا فضل ہے جو کسی کے نصیب میں آ جائے ۔عمران خان تو وہ شخص ہے جس نے اس پارٹی میں شرکت سے انتظار کیا جس میں شیطان رشدی موجود تھا۔
اس نے یا اس کے کسی عہدے دار نے تو نہیں کہا کہ قادیانی بھی مسلمانوں کی طرح نماز ادا کرتے ہیں۔کوئی مجھے بتا دے کہ عمران خان کے کسی پارٹی عہدے دار نے کہا ہو کہ قادیانی مسلمان ہیں خود عمران خان نے ختم نبوتۖ کے معاملے پر بڑی کھل کے بات کی۔قادیانی غیر مسلمان ہیں یہ فیصلہ طے ہو چکا ہے۔اور اگر کسی کو اقتتدار سے نکالے جانے کے بعد کسی بیرونی طاقت نے یہ اشارہ دیا ہو کہ یہ ترمیم ختم کرائو ہم تمہارے ساتھ ہیں تو یہ کوئی اور بات ہو گی۔
ہمیں پی ٹی آئی کو اللہ کے فضل سے کسی ایسی لالچ سے غرض نہیں جو شخص یہ کہہ چکا ہو کہ عدالتیں اگر اسے نا اہل قرار دیتی ہی تو ہو کبھی کیوں نکالا؟کیوں نکالا؟کی صدائیں بلند کرتا پنڈی دینہ جہلم نہیں جائوں گا۔تو اسے اس قسم کی لالچ جھانسہ نہیں دے سکتی۔اور خدا نخواستہ خدا نخواستہ اگر پی ٹی آئی میں اس قسم کی لالچ دینے کی کوشش کی گئی تو پارٹی میں اللہ کے فضل و کرم سے وہ لوگ طاقت میں ہیں جو آقائے نامدارۖ کی حرمت پر کٹ مریں گے۔لہذہ کارکن اس پر بے چین نہ ہوں۔یہ ہماری ایمانی غیرت سے جڑا ہوا مسئلہ ہے جس پر پارٹی کا ہر فرد پاکستان کے آئین اور قانون کی پاسداری کے لئے ڈٹ کے کھڑا ہے۔ممتاز قادری شہید کے وقت بھی ایک لابی پی ٹی آئی پر لٹھ لے کر چڑ دوڑی تھی کسی کو علم نہیں تھا کہ شہید کا جنازہ پی ٹی آئی کے ایک راہنما ے گھر ہی اترا تھا اور ہمارے بیشتر راہنما جنازے میں تھے۔یہ الگ بات ہے کہ اس ایشو کو سیاست کے لئے نہیں استعمال کیا گیا۔نون لیگ کی حکومت کو جنگ پانامہ میں سخت ہزیمت اٹھانی پڑ رہی ہے جو لوگ کل کہہ رہے تھے کہ پانامہ کوئی مسئلہ نہیں آج ان کی صفوں کے دو سرخیل اپنے ٹبر سمیت رسوا ہو رہے ہیں میں حیران ہوں ایک وفاقی وزیر جس کی وجہ سے پاکستان میں ہل چل مچی ہوئی ہے اسے خود کیوں نہیں نکال رہی؟معلوم نہیں یہ بھی چاہتے ہیں کہ نکال دیا جانے کے بعد کیوں نکالا کیوں نکالا کی رٹ لگاتے ہوئے کنارہ ہوٹل سے کھبے ہتھ ہو جائیں اور نواز شریف کو کہیں کہ آپ ناک کی سیدھ پر لاہور پہنچیں۔
ہمارے ہاں استعفی دینے کی کوئی روائت نہیں ہے جاپان میں ٹرین حادثہ ہو جائے تو منسٹر استعفی دے دیتے ہیں بلکہ بعض کیسوں میں خود کشی کر لیتے ہیں۔ہم یہ نہیں چہاتے کہ ان حلات میں وہ حرام موت کا سمان کریں مگر ملک میں پھیلی افراتفری کے خاتمے کے لئے چند ماہ کی حکومت کو گلے سے نہ لگائیں ویسے بھی آصف باجوہ بتا رہے تھے کہ این اے ١١٤ میں اب زاہد حامد کی کہانی ختم ہے۔
کل ایک ایک اور مضحکہ خیز صورت حال سامنے آئی جب وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ جڑواں شہروں کے لوگ ہمارے پاس آئے ہیں اور کہہ رہے تھے کہ ہم دو ہفتوں سے شدید تکلیف میں ہیں ہمیں موقع دیا جائے ہم ان سے جگہ خالی کراوتے ہیں اور سڑکیں کھلواتے ہیں۔واہ جی واہ کیا کمال منطق ہے۔راولپنڈی اور اسلام آباد کے باسی گرچہ تکلیف میں ہیں پہنچنے میں دیر ہو رہی ہے مگر ہم لوگ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ آقائے نامدار کی ختم نبوتۖ کے لئے بیٹھنے والے جاں نثاراں ایک عظیم کام انجام دے رہے ہیں۔مجھے ان لوگوں پر دکھ ہوتا ہے جو اس احتجاج کے نتیجے میں ٹریفک میں جاں بحق ہونے والے بچے کے والدین کے دکھڑے کو اچھال رہے ہیں۔ان سے بس ایک سوال ہے کہ سڑکوں پر جنم دینے والی مائوں کی وجہ بھی یہ دھرنہ ہے؟انتہائی قیمتی ہسپتالوں میں مرنے والے بچے بھی اسی دھرنے کی وجہ سے مرے ہیں؟اس Emotional Black Mailingکی قطعا ضرورت نہیں ہے۔یہ نبی پاکۖ کی ختم نبوت کی جد وجہد میں ڈال دیجئے قیامت کے روز آقائے نامدار اس کا فیصلہ خود کروا لیں گے۔میری گاڑی ٹریفک میں پھنس گئی میں نے کلچ کوئی دو سو بار دبا لیا گھر والوں کا منہ دیر سے دیکھ لیا تو قیامت ڈھے گئی ؟اس قوم نے کے کئی گھنٹے پہلے بھی ضائع ہوتے رہے ۔یہ تو ایسا ہی کہ الزام لگا دیا گیا کہ ١٢٦ دن کے دھرنے سے سورج مشرق کی بجائے مغرب سے نکلتا رہا۔ یہ دھرنہ نہ ہوتا تو ہم چاند پر پہنچ سکتے تھے۔
وڈے آئے جڑواں شہروں کے لوگوں کی تکلیفیں دور کرنے والے۔م چارہ گرو!یہ تو بتائو کہ ان دو شہروں کے لوگ صاف پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں گرمیوں میں بجلی ،بلکہ اب بھی غائب سردیوں میں گیس نہیں ہوتی لوگ ناشتہ کئے بغیر گھروں سے جاتے ہیں سڑکیں موئن جو دڑو بنی ہوئی ہیں۔بچے بسوں کی چھتوں پر ایسے چڑھے ہوتے ہیں جیسے شہد کی مکھیاں اس وقت آپ کے پیٹ میںمروڑ نہیں اٹھتا اب ذرا خادم حسین رضوی چند ہزار لوگوں کے ساتھ بیٹھا تو لکھنوء کے بانکوں کو تکلیف ہو گئی ہے۔وڈے آئے تکلیفاں محسوس کرنے والے نیلسن منڈیلے تئے ایدھی۔ارسطو نارووال کو بتائے دیتے ہیں ہائی کورٹ کے فیصلے کی آڑ میں اگر سانحہ ء ماڈل ٹائون دہرانے کی کوشش کی تو یہ نون لیگ کی حکومت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گا۔اور جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ مارشل لاء لگنے والا ہے وہ بہتر ہے ماجھے کی لسی پی لیں اور دماغ کو ٹھنڈہ کریں یہ پاکستان ہے کوئی افریقی ملک نہیں۔اب وہ دور گیا ۔مارشل لاء سے بہتر قبل از وقت انتحابات ہیں۔ہمیں کسی صورت بھی جمہوریت کی گاڑی کو ڈی ریل نہیں ہونے دینا۔اس آڑ میں کوئی سازش کر رہا ہے تو وہ بھی جان لے قوم کسی صورت بھی کسی غیر جمہوری عمل کا ساتھ نہیں دے گی۔
اس کا واحد شریفانہ حل ہے کہ زاہد حامد کو رخصت کریں دھرنہ ختم کرائیں۔نواز شریف اسحق ڈار اگر چلے گئے ہیں تو یہ شخص بھی چلا گیا تو کوئی قیامت نہیں ڈھئے جائے گی۔امریکیوں کو کہہ دیں کہ توہین رسالت کے قانون جمہوری حکومتوں نے بنائے اور اایک ایسے ملک میں بنے جہاں قران و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جا سکتا۔اگر یورپ کے سترہ ممالک میں یہودی نسل کشی کے انکار کرنے والوں کے لئے سزائیں ہیں اور قوانین بنے ہیں تو یہاں ہم بھی اپنی مرضی کے قانون بنا سکتے ہیں۔ اور بنائے ہیں تو کسی کے ٹڈ میں کسی قسم کی پیڑھ نہیں ہونی چاہئے اگر ہے تو اس کا علاج کرائے بلکہ جا کے اپنی بھینس چرائے۔ رہی بات مولوی صاحب کی گالیوں کی آپ زاہد حامد کو نکالیں اس پر بعد میں بات ہو گی۔پرانوں سے نپٹ لیا تھا ان تازہ چوروں کو بھی دیکھ لیں گے۔