صرف پاکستان میں سونامی لانے کا دعویٰ کرنے والے سیاستدان نے کہا ہے کہ مجھے سیاست میں آنے کا کوئی شوق نہیں تھا صرف پاکستان کی بہتری کیلئے سیاست میں قدم رکھاعوام کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔۔۔ کم و بیش یہی باتیں میاں نواز شریف بھی کرتے رہتے ہیں سابقہ صدر آصف علی زرداری بھی ۔۔میاں شہباز شریف بھی ایسی باتیں کرکے عوام کا دل موہ لیتے ہیں مجھے یقین ہے بلکہ آپ لوگ ناراض نہ ہوں تو میں سب کے سامنے دعوےٰ کرتاہوںیہی خوشنما باتیں،عوام کے ساتھ جینے مرنے کی قسمیں اوربلند بانگ دعوے ان کے سیاسی جانشین بھی کریں گے عوام پر حکمرانی کیلئے نئی کھیپ تیار ہورہی ہے کچھ عملاً سیاست میں آگئے ہیں کچھ کا انتظار کیا جارہا ہے
نئی کھیپ میں محترمہ مریم نواز۔تو۔میاں نواز شریف کی جانشین ہوں گی ،بلاول بھٹو زرداری۔۔آصف زرداری،، ذوالفقار علی بھٹو جونیئر۔۔۔مرتضیٰ بھٹو ۔۔میاں حمزہ شہباز۔۔۔ میاں شہباز شریف اور چوہدری مونس الہی ۔۔۔ چوہدری خاندان کے سیاسی جانشین ہوں گے۔آج اس ملک میں زندگی سے مایوس ، حالات کی بے رحمی کا شکار ، کم وسائل رکھنے والے اور سسک سسک کر قسطوں میں مرنے کے باوجود جینے کی آرزو کرنے کے بے چارے پاکستانیوں اکثریت ہے جو زندگی کی بنیادی سہولتوں سے یکسر محروم ہیں یہ لوگ جینے کی آرزو میں جئے جارہے ہیں اور بدقسمتی سے ان کی یہ خواہش محض خواہش کے سوا کچھ نہیں اس ملک کی ستم ظریفی یہ ہے
ان غریبوں کیلئے کوئی بھی نہیں سوچتا حکمرانوں،فوجی ڈکٹیٹروں اور اپوزیشن سب کا رویہ عوام کے ساتھ ایک جیسا ہے شاید موجودہ حالات میں عوام کو دادرسی کے لئے اب کسی کرشمے کا انتظار ہے وزیروں، مشیروں اور ارکان اسمبلی کا تعلق خواہ کسی بھی پارٹی سے ہو ان کے مفادات ایک ہیں وہ بھی صرف اپنے لئے سوچتے ہیں یاد نہیں کسی پارٹی نے کبھی عوامی حقوق کیلئے کوئی تحریک چلانے کااعلان کیاہو ۔۔۔ یا کسی سیاستدان نے مہنگائی کے خلاف سڑکوں پر پولیس کی مار کھائی ہو حالانکہ اس طبقہ کی تمام آشائسیں عوام اور پاکستان کے دم سے ہیں اس کا ایک مطلب یہ بھی لیا جا سکتاہے
یہ لوگ ہاتھی کے دانتوںکی طرح ہیں کھانے والے اور دکھانے والے اور حکمرانوں،اپوزیشن ارکان اور ان کے جانشین شاید یہ بھی نہیں جانتے ہوں گے کہ لاہور کے کئی علاقے آج بھی ایسے ہیں وہاں مسائل کی بھرمارہے لوگ گندے پانی کے نکاس ،پینے کا پانی انتہائی آلودہ ،ٹوٹی سڑکیں، ابلتے گٹر اور مسائل در مسائل سے یہ آبادیاںدیہات کا منظر پیش کررہی ہیں لگتا ہی نہیں یہ لاہور کا علاقہ ہے بلکہ اسے لاہور کہنا بھی لاہور کی بے عزتی محسوس ہوتی ہے یہ علا قے مسائلستان بنے ہوئے ہیں اسی پرموقوف نہیں کیا شہر کیا دیہات۔۔اپنے حالات دیکھیں تو محسوس ہوتاہے پورا پاکستان جنجال پورہ بناہوا ہے
Law
لوگ زندگی کی بنیادی سہولتوں کو ترس رہے ہیں کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ ہرروز نئے دعوے کرنے والے،جمہوریت کی قسمیں کھانے والے، آئین اور قانون کی بالادستی کی دہائی دینے ہمارے حکمرانوںنے عوام کو ان کے حل پر چھوڑ دیا ہے؟ دل پر ہاتھ رکھ کر کوئی کہہ سکتاہے پاکستان میں جو نظام رائج ہے کیا یہ واقعی جمہوریت ہے حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھاپاکستانی قوم کے بہتر مستقبل کیلئے حکمران تمام غیر ضروری اخراجات بند کردیتے ،سرکاری وسائل کا بیدردی سے استعمال بند کیا جانا ضروری ہے ،ہر شطح پر سادگی کو فروغ دیا جائے۔
تمام سرکاری محکموں کے خرچ کو کنٹرول کرنے کیلئے نئی حکمت ِ عملی وضح کرنے کی شدید ضرورت ہے، وفاقی اورتمام صوبائی حکومتوں میں مختصر کابینہ بنائی جائے وزیروں مشیروں کی فوج ظفر موج ، سرکاری محکموں میں نت نئی گاڑیاں خریدنا اور بیوروکریسی کا اختیارات سے تجاوز ہمارے ملکی وسائل کو چاٹ رہا ہے یہ وسائل عوام کی فلاح و بہبودپر خرچ کئے جائیں تومعاملات کافی بہتر کئے جا سکتے ہیں لیکن پھروہی بات کوئی سوچتا ہی نہیں۔۔ ہمارے حکمرانوں کے دل میں کروڑوں عوام کی خواہش کا کوئی احترام نہیں یہی وجہ ہے کہ جب بھی جمہوریت پر شب خون مارا گیا منتخب وزیر ِ اعظم کی حمایت میں کسی شخص نے سڑکوںپرآنا پسند نہیں کیا
شاید حکمران اپنے آپ کو بادشاہ سلامت سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ جب بھی یہ طبقہ عوام کو اپنا بھائی قرار کہتاہے مجھے یوں محسوس ہوتاہے جیسے یہ گالی دے رہے ہوں یہ غریبوںکو بھائی نہ سمجھیں صرف عوام کے حقوق ہی دیدیں تو کافی سارے مسئلے حل ہو جائیں گے لیکن کوئی سوچتاہی نہیں کوئی ان سے پوچھے اگر آپ ہمارے بھائی ہیں تو ہماری طرح12-10گھنٹے لوڈشیڈنگ کا عذاب برداشت کر سکتے ہیں؟۔۔غریبوںکے گھروںمیں تو فاقے ہورہے ہیں حکمرانو! تم لوگوںنے زندگی میں کتنے فاقے کئے ہیں؟۔۔۔ہے کوئی جواب؟