سوڈان (اصل میڈیا ڈیسک) سوڈان کے فوجی حکمراں جنرل عبدالفتاح البرہان کا کہنا ہے کہ ملک پر فوج کا کنٹرول ”بغاوت نہیں” ہے بلکہ یہ اقتدار کی جمہوری منتقلی کے لیے ہے۔ ادھر امریکا اور اقوام متحدہ نے جمہوری حکومت کو بحال کرنے پر زور دیا ہے۔
سوڈان کے فوجی سربراہ عبد الفتاح البرہان نے چار نومبر جمعرات کو چار سویلین وزراء کو رہا کرنے کا حکم دیا۔ فوجی بغاوت کے بعد مشرقی افریقی ملک سوڈان کی جمہوریت کو خطرات لاحق ہیں اور اطلاعات کے مطابق امریکا اور اقوام متحدہ کے شدید دباؤ کے بعد جنرل عبد الفتاح نے یہ فیصلہ کیا ہے۔
جنرل عبدالفتاح البرہان نے سویلین وزراء کی رہائی کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ایک نئی حکومت کا قیام لازمی ہے تاہم انہوں نے اس حوالے سے کوئی تفصیل نہیں بتائی کہ آخر یہ نئی حکومت کس طرز کی اور کس کے قیادت میں ہو گی۔
آرمی چیف عبد الفتاح البرہان کے ایک ترجمان طاہر ابو حاجہ نے جمعرات کے روز کہا، ”ہم قومی مفاد کے لیے تمام اندرونی اور بیرونی اقدامات پر غور کر رہے ہیں۔”
اس کے بعد سوڈان ٹی وی نے مواصلات کے وزیر ہشیم حصال برالسول، تجارتی امور کے وزیر علی جیدو، اطلاعات و نشریات کے وزیر حمزہ بلول اور کھیل اور نوجوانوں کے امور کے وزیر یوسف آدم کو رہا کئے جانے کی خبر دی۔
اقوام متحدہ کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے سوڈان کی فوج پر زور دیا تھا کہ وہ ملک میں آئین کی بالا دستی کو قائم کرنے کے ساتھ ہی اقتدار کی منتقلی کا عمل تیز کرے اور جتنی جلدی ممکن ہو ملک کے سیاسی بحران کو حل کرے۔
اسی حوالے سے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن نے بھی جمعرات کو سوڈان کے فوجی سربراہ سے فون پر بات چیت کی تھی اور انہوں نے بھی اقتدار کی منتقلی کے عمل کو تیز تر کرنے کی بات کہی تھی۔
امریکی وزیر خارجہ کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا، ”فریقین نے جمہوریت کی منتقلی کے راستے کو برقرار رکھنے، عبوری حکومت کے ڈھانچے کو مکمل کرنے اور نئی حکومت کی تشکیل کو تیز کرنے کی ضرورت پر اتفاق کیا۔”
ادھر عبدالفتاح برہان کے دفتر نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ جنرل نے جلد از جلد حکومت بنانے پر اتفاق کیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے وزیر اعظم عبداللہ حمدوک کی عہدے پر واپسی کے ساتھ ہی تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی پر بھی زور دیا۔ انہوں نے برہان سے، ”سوڈان میں سویلین حکومت کو بحال کرنے کو کہا۔”
سوڈان میں فوجی بغاوت فوجی سربراہ برہان اور سویلین وزیر اعظم عبداللہ حمدوک کے درمیان کشیدگی کے بعد ہوئی۔ حمدوک اس وقت گھر میں نظر بند ہیں۔ دارالحکومت خرطوم میں اس بغاوت کے خلاف مظاہرین نے بڑے پیمانے پر مظاہروں کے دوران، ”فوجی حکمرانی ختم کرو” کے نعرے لگائے۔
بہت سی مزاحمتی کمیٹیاں بغاوت کے بعد سے مظاہروں کی قیادت کر رہی ہیں اور فوج سے مکمل طور پر سیاست سے باہر ہونے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ جمعرات کے روز بھی دارالحکومت میں مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔
سن 2019 میں ‘دی سوڈانی پروفیشنلز ایسوسی ایشن، نے ان مظاہروں کی قیادت کی تھی جس کی وجہ سے عمر البشیر کی حکومت کا تختہ پلٹ گیا تھا۔ اسی تنظیم نے فوجی بغاوت کے خلاف اتوار اور پیر کے دن دو روزہ عام ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔