خرطوم (اصل میڈیا ڈیسک) افریقی ملک سوڈان میں احتجاجی تحریک کے آغاز کے دو سال مکمل ہونے پر دوبارہ ملک بھر میں مظاہروں کا آغاز ہو گیا ہے۔
مظاہرین حکومت سے اصلاحات کرنے کا مطالبہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مظاہرین نے دارالحکومت خرطوم میں صدر دفتر کے سامنے بھی مارچ کیا۔ سوڈان میں دسمبر دو ہزار اٹھارہ کے دوران تقریبا تیس برس آمرانہ حکومت کرنے والے عمر البشیر کے خلاف مظاہروں کا آغاز ہوا تھا۔ اپریل دو ہزار نو میں ملکی فوج نے عمر البشیر کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے ملک کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔
اس واقعے کے کئی ماہ بعد تک احتجاجی مظاہرے جاری رہے اور عوامی دباؤ کے تحت فوج ایک ایسی خودمختار کونسل کے قیام پر رضامند ہوئی، جس میں شہری نمائندگی پر بھی اتفاق کیا گیا تھا۔سوڈان میں فوجی حکومت کے خلاف لوگ بڑی تعداد میں سڑکوں پر اتر آئے ہیں جبکہ وہاں سے ہلاکتوں اور لوگوں کے زخمی ہونے کی خبریں بھی آ رہی ہیں۔
سرکاری نیوز ایجنسی نے وزارت صحت کے حوالے سے بتایا ہے حالیہ مظاہروں میں کہ کم از کم سات افراد ہلاک اور 181 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
جبکہ مخالفت کی حامی سوڈان کے ڈاکٹروں کی سینٹرل کمیٹی نے پانچ مظاہرین کی ہلاکت کی بات کہی ہے۔
خیال رہے کہ سوڈان اپریل میں فوج کے ہاتھوں صدر عمر البشیر کے ہٹائے جانے کے بعد سے شورش کا شکار ہے۔
خبررساں ادارے اے ایف پی نے بتایا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے صدارتی محل کے پاس اور خرطوم کے تین مختلف اضلاع میں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے اشک آور گیس کا استعمال کیا۔
اشک آور گیس کا استعمال اُم درمان اور القضارف شہر میں بھی کیا گیا ہے۔
سنيچر کو سوڈان کی پروفیشنل ایسوسی ایشن (ایس پی اے) نے ایک نیوز کانفرنس بلائی تھی جس میں نیم فوجی دستے آ گھسے اور اسے ختم کر دیا۔ خیال رہے کہ ایس پی اے مظاہرے کے اہم منتظمین ہیں۔
فوج نے کہا ہے کہ کسی بھی تشدد اور ہلاکت کے لیے وہ حزب اختلاف کو ذمہ دار ٹھہرائے گی۔