سوڈان (اصل میڈیا ڈیسک) افریقی ملک سوڈان میں فوج کی بغاوت کو اقوام متحدہ نے ناقابلِ قبول قرار دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق بغاوت کے بعد عبوری حکومت کے وزیر اعظم عبداللہ حمدوک کو گھر پر نظر بند کر دیا گیا ہے۔
سوڈان میں فوجی بغاوت کے بعد بڑی تعداد میں جمہوریت نواز مظاہرین نے احتجاج شروع کر دیا ہے اور انہوں نے فوج کے ہیڈ کوارٹر کو گھیرے میں لے لیا ہے۔ ہیڈکوارٹر کی جانب بڑھتے ہوئے انہوں نے پہلے سے کھڑی کی گئی رکاوٹوں کو بھی روند ڈالا۔ مظاہرین نے دارالحکومت خرطوم کی سڑکوں کی ناکہ بندی شروع کر دی ہے۔
سوڈانی فوج کی جانب سے اس صورت حال پر ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔
اس احتجاج کے باوجود سڑکوں اور چوراہوں پر تعینات فوجی اہلکار بہت مطمئن دکھائی دے رہے ہیں۔ سوڈانی وزارت اطلاعات کی جانب سے یہ ضرور کہا گیا کہ تمام گرفتار شدگان کو کسی نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ وزارتِ اطلاعات کا یہ بھی کہنا ہے کہ فوج کے اہلکار ریاستی نشریاتی اداروں میں داخل ہو چکے ہیں۔
اس بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ فوج چاہتی ہے کہ مقید وزیر اعظم عبداللہ حمدوک اس بغاوت کی حمایت کریں۔ وزارتِ اطلاعات نے یہ بھی واضح کیا کہ حمدوک نے فوج کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا ہے اور انہوں نے عوام سے کہا ہے کہ وہ پرامن احتجاج کے ساتھ ساتھ انقلاب کے دفاع کا عمل بھی جاری رکھیں۔
اقوام متحدہ کے سوڈان کے لیے مقرر خصوصی نمائندے فولکر پیرتھیز کا کہنا ہے کہ فوج کی بغاوت کا عمل انتہائی تشویشناک ہے اور ناقابلِ قبول بھی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فوج کی جانب سے حکومت پر قبضہ کرنے کے بعد وزیر اعظم، سرکاری ملازمین اور سیاستدانوں کی گرفتاریاں بھی باعثِ پریشانی ہیں۔
انہوں نے فوج سے کہا ہے کہ وہ ان تمام افراد کو فوری طور پر رہا کرے جنہیں حراست میں لیا گیا ہے کیونکہ یہ گرفتاریاں غیر قانونی ہیں۔
یورپی یونین اور امریکا نے بھی سوڈان میں فوج کے حکومت پر قبضہ کرنے پر شدید تشویش ظاہر کی ہے۔ یورپی یونین نے تمام فریقوں اور علاقائی پارٹنرز سے کہا ہے کہ وہ عبوری حکومتی عمل کی حمایت جاری رکھیں۔ اس سے مراد وہ حکومتی عمل ہے جو اگست سن 2019 کے ایک معاہدے کے بعد شروع ہوا تھا۔
عرب ممالک کی تنظیم نے بھی فوج کی بغاوت پر گہری پریشانی کا اظہار کیا ہے۔ اس تنظیم کے سیکرٹری جنرل احمد ابو الغیط نے اپنے بیان میں کہا کہ سوڈان کے تمام فریق اگست سن 2019 کے دستوری اعلامیے کا احترام کریں۔ اسی دستوری اعلامیے کے تحت سوڈان میں عبوری حکومت کی تشکیل ممکن ہوئی تھی۔
احمد ابو الغیط نے یہ بھی کہا کہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں جو مکالمت سے حل نہ ہو سکے لہذا تمام فریقین مذاکرت کی راہ اپنائیں۔ عرب لیگ کے سربراہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ عبوری حکومت کے دور میں جو پیش رفت ہوئی ہے، اس کا احترام کرنا ضروری ہے ورنہ سوڈان غیر مستحکم ہو سکتا ہے۔