سوڈان (اصل میڈیا ڈیسک) سوڈان کے ایک سرکردہ احتجاجی گروپ نے اتوار کے روز فوج کے ساتھ مذاکرات کے لیے اقوام متحدہ کے اقدام کو مسترد کردیا ہے۔اس کا مقصد اکتوبرمیں فوجی بغاوت کے بعد ملک میں جمہوریت کی جانب منتقلی کے عمل کی بحالی ہے۔
اقوام متحدہ نے سوڈان میں متحارب فریقوں کے درمیان مصالحت کی یہ پیش کش وزیراعظم عبداللہ حمدوک کے مستعفی ہونے کے ایک ہفتے بعد کی ہے۔انھوں نے جرنیلوں اور جمہوریت نواز تحریک کے درمیان سمجھوتے میں ناکامی کا حوالہ دیا ہے۔
سوڈان کے سابق مطلق العنان صدرعمرحسن البشیر کے خلاف عوامی احتجاجی تحریک میں اہم کردار ادا کرنے والے سویلین اتحاد فورسزبرائے آزادی اورتبدیلی (ایف ایف سی) نے کہا کہ اسے اقوام متحدہ کے مصالحتی اقدام کے بارے میں کوئی تفصیل موصول نہیں ہوئی ہے۔
سوڈانی پیشہ وروں کی تنظیم (پروفیشنلزایسوسی ایشن) نے اقوام متحدہ کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات کو مکمل طورپرمسترد کردیا ہے۔ایس پی اے نے ایک بیان میں کہا کہ سوڈانی بحران کے حل کا واحد طریقہ یہ ہےکہ حکمران فوجی کونسل کومکمل طورپراقتدار سے بے دخل کیا جائے اور اس کے اراکین کو بے سہارااورپُرامن سوڈانی عوام کی کریک ڈاؤن میں ہلاکتوں پرانصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
سوڈانی پروفیشنلز ایسوسی ایشن نے کہا کہ جاری بحران سے نکلنے کا ’واحد راستہ‘جرنیلوں کو اقتدار سے ہٹانا ہے۔ایس پی اے مزاحمتی کمیٹیوں کے نام سے معروف نوجوانوں کے گروپوں کے ساتھ بغاوت مخالف مظاہروں میں بنیادی کردار ادا کرتی رہی ہے۔
سوڈان کے لیے اقوام متحدہ کے ایلچی وولکرپرتھیس نے کہا کہ یہ مذاکرات ملک میں جمہوریت اور امن کی جانب پائیدار راستے تک پہنچنے کی کوشش ہیں۔انھوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ تشدد کوختم کیا جائے اور تعمیری عمل شروع کیاجائے۔ان کے بہ قول یہ ایک عمل جامع ہوگا۔
اگرچہ ایلچی نے ابھی تک اقوام متحدہ کی سہولت سے شروع ہونے والے سیاسی عمل کی تفصیل پیش نہیں کی ہے لیکن ایس پی اے کے استرداد سے جرنیلوں اور جمہوریت نوازتحریک کو مذاکرات کی میز پر لانے کی ان کی کوششوں کو دھچکا لگا ہے۔
ایس پی اے کا کہنا ہے کہ ایلچی پرتھیس کے اقدامات ’متنازع‘رہے ہیں۔تنظیم نے نومبر میں فوج کے ساتھ عبداللہ حمدوک کے معاہدے کی حمایت کا حوالہ دیا۔اس میں فوج نے وزیراعظم کو تو ان کے عہدے پر بحال کردیاتھا لیکن معاہدے میں جمہوریت نواز تحریک کومکمل طور پر نظراندازکردیا گیا تھا۔
ایس پی اے نے کہا کہ انھیں (اقوام متحدہ )ایک مکمل سویلین اور قومی حکمرانی کے قیام میں ہمارے قابل فخر لوگوں اور ان کی انقلابی قوتوں کے مقاصد کو غور سے سننا ہوگا۔
تاہم عالمی اور علاقائی طاقتوں نے اقوام متحدہ کے اقدام کا خیرمقدم کیا ہے۔امریکا، برطانیہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے سوڈان کے تمام فریقوں زوردیا ہے کہ وہ عبوری حکومت کے قیام کی 2019 کی تعمیراتی دستاویز کے مطابق’’سویلین جمہوریت میں ملک کی منتقلی کو بحال کرنے کے اس موقع سے فائدہ اٹھائیں۔
اقوام متحدہ میں پانچ ممالک امریکا، برطانیہ، البانیا، فرانس اور ناروے نے سوڈان کی صورت حال پر غور کے لیے سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کی درخواست کی ہے۔ سفارت کاروں نے بتایا کہ یہ ممکنہ طور پر منگل یا بدھ کو ہوگا۔ احتجاجی مظاہرے
دریں اثناء سوڈان کے دارالحکومت خرطوم اوراس کے جڑواں شہراُم درمان میں اتوار کو ہزاروں افراد نے فوج کے اقتدارپر قبضے کے خلاف ریلیاں نکالی ہیں۔اس دوران میں سکیورٹی فورسزنے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے اشک آور گیس کے گولے پھینکے ہیں۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ سکیورٹی فورسز نے خرطوم میں صدارتی محل کی طرف بڑھتے ہوئے جمہوریت کے حامی مظاہرین پرآنسوگیس فائرکی ہے۔اُم درمان میں بھی مظاہرین نے ریلی نکالی ہے۔
سوڈان کے جمہوریت پسندوں نے 11ہفتے قبل فوجی بغاوت کے خلاف اپنی احتجاجی تحریک جاری رکھی ہوئی ہے۔طبّی عملہ کے مطابق فوج کی 25 اکتوبر کوحکومت کے خلاف بغاوت کے بعد سے احتجاجی مظاہرین کے خلاف سکیورٹی فورسز کےکریک ڈاؤن میں کم سے کم 60 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
تاہم حکام نے مظاہروں پرقابو پانے کے لیے براہ راست گولہ بارود کے استعمال کی تردید کی ہے اورکہا ہے کہ مظاہروں کے دوران میں سیکورٹی فورسز کے متعدد اہلکار بھی زخمی ہوئے ہیں۔
گذشتہ ہفتے سوڈان کے سویلین وزیراعظم عبداللہ حمدوک نے یہ کہتے ہوئے استعفا دے دیا تھا کہ ملک ایک خطرناک چوراہے پرکھڑا ہے۔اس سے اس کی بقا کو خطرہ لاحق ہے۔انھوں نے 21 نومبرکو اپنا عہدہ دوبارہ سنبھالاتھا۔فوج نے اکتوبر کی بغاوت میں اقتدارپر قبضہ کرنے کے بعد انھیں اوران کی حکومت کومعزول کردیاتھا۔
دوسری جانب سوڈان کے فوجی حکمران جنرل عبدالفتاح البرہان کا بالاصراریہ کہنا ہے کہ ’’اکتوبرمیں فوج کا اقتدار پر قبضہ بغاوت نہیں تھی بلکہ اس کا مقصد صرف سوڈان میں انتقال اقتدارکا راستہ درست کرناتھا‘‘۔