خرطوم (جیوڈیسک) سوڈان میں حکومت مخالف احتجاجی تحریک دوسرے مہینے میں داخل ہو گئی ہے۔ اتوار کو احتجاجی مظاہرین نے دارالحکومت خرطوم کے جڑواں شہر اُم درمان میں پارلیمان کی جانب مارچ کیا ہے اور ان کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئی ہیں۔
مظاہرین نے اُم درمان میں ایک مرکزی شاہراہ الاربعین کو بلاک کردیا۔اس دوران میں ان کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئی ہیں اور پولیس نے انھیں منتشر کرنے کے لیے اشک آور گیس کے گولے پھینکے ہیں۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے اُم درمان کی شاہراہوں پر ان کا پیچھا کیا ہے۔ حکام نے مظاہرین پر قابو پانے کے لیے باوردی اور سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں کی بڑی تعداد تعینات کی تھی اور انھیں کم سے کم تیس ٹرکوں میں لاد کر لایا گیا تھا۔
سوڈان کی مختلف ٹریڈ یونینوں پر مشتمل پروفیشنل ایسوسی ایشن نے ہفتے کے روز ایک بیان میں آج پارلیمان کی جانب مارچ کی اپیل کی تھی اور کہا تھا کہ پارلیمان کے ارکان کو ایک یادداشت پیش کی جائے گی ۔اس میں صدر عمر حسن البشیر سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
سوڈانی شہریوں نے گذشتہ ایک ماہ کے دوران میں دریائے نیل کے مغربی کنارے میں واقع اُم درمان میں متعدد احتجاجی مظاہرے کیے ہیں۔ سوڈان کے مختلف شہروں اور قصبوں میں بھی آج احتجاجی ریلیاں نکالی جارہی ہیں اور ایسوسی ایشن کے بیان کے مطابق مظاہروں کا یہ سلسلہ منگل تک جاری رہے گا۔
سوڈان میں 19 دسمبر کو حکومت کی جانب سے روٹی کی قیمت میں تین گنا اضافے کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے تھے ۔پھر احتجاجی مظاہرین نے صدر عمر البشیر سے استعفے کا مطالبہ شروع کردیا تھا ۔سوڈانی حکومت نے ان مظاہروں میں حصہ لینے کے الزام میں 800 سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا ہے۔ اس دوران میں تشدد کے واقعات میں دو سکیورٹی اہلکاروں سمیت 26 افراد مارے گئے ہیں لیکن انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹر نیشنل نے ہلاکتوں کی تعداد 40 بتائی ہے۔