سوڈانی صدر عمر البشیر عوامی احتجاج کا بوجھ برداشت نہ کر سکے

Protest

Protest

سوڈان (جیوڈیسک) سوڈانی فوج نے تیس برس تک منصب صدارت پر براجمان رہنے والے عمر البشیر کو ہٹا دیا ہے۔ وہ اس وقت فوج کی زیرحراست ہیں۔ انہیں گزشتہ برس دسمبر میں شروع ہونے والی عوام کی پرزور عوامی تحریک کا سامنا تھا۔

سوڈان کے وزیر دفاع عود محمد احمد ابن عوف نے ملکی میڈیا پر بتایا ہے کہ عمر البشیر کو منصب صدارت سے فوج نے ہٹانے کے علاوہ اُن کی حکومت بھی ختم کر دی ہے۔ وزیر دفاع نے یہ بھی بتایا کہ اس وقت فوج نے البشیر کو گرفتار کر کے ایک محفوظ مقام پر رکھا ہوا ہے۔ جمعرات گیارہ مارچ کو ہونے والی پیش رفت کے حوالے سے یہ پہلا بیان جاری کیا گیا ہے۔

وزیر دفاع نے بتایا کہ ملٹری کونسل نے ملکی انتظام دو برس کے لیے سنبھال لیا ہے اور اس کے اختتام پر آزاد اور شفاف انتخابات کرائے جائیں گے۔ سوڈان میں تین ماہ کے لیے ایمرجنسی کے نفاذ کے ساتھ ساتھ میں رات کا کرفیو بھی لگا دیا گیا ہے۔ ملکی پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ تمام وزارتیں بھی تحلیل کر دی گئی ہیں۔ حکومتی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد فوج کے ایک دستے نے عمر البشیر کی سیاسی جماعت نیشنل کانگریس پارٹی سے وابستہ ایک مذہبی و سیاسی گروپ ’اسلامک موومنٹ‘ کے دفتر پر چھاپہ مار کر تلاشی بھی لی ہے۔ سکیورٹی ایجنسی نے تمام سیاسی قیدیوں کو رہا بھی کر دیا ہے۔

قبل ازیں خرطوم میں دو سینیئر سول اور فوجی حکومتی ذرائع نے نیوز ایجنسی اے پی کو اپنی اپنی شناختیں مخفی رکھتے ہوئے بتایا کہ ملکی فوج کی اعلیٰ کمان نے عمر البشیر کو منصب صدارت چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔ ابھی تک مکمل حالات واضح نہیں کہ فوج کا اُن کے ساتھ سلوک کس قسم کا رہا تھا۔ حکومتی ذرائع بھی البشیر کے بارے میں کوئی مصدقہ معلومات دینے سے گریز کر رہے ہیں۔

صوبائی وزیر عادل محجوب حسین کے مطابق سوڈانی فوج میں مشاورت جاری ہے کہ حکومتی کنٹرول کون سنبھالے گا؟ اس مناسبت سے فوج کی جانب سے جمعرات گیارہ مارچ کو کسی وقت اعلان کیا جائے گا۔ عمر البشیر کے منصبِ صدارت سے فارغ ہونے کی خبر کے بعد خرطوم کی سڑکیں عام لوگوں سے بھر گئیں اور وہ فرط مسرت کے اظہار کے طور پر ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے رہے۔

یہ ایک دلچسپ صورت حال ہے کہ سوڈان میں گیارہ مارچ کی صبح سے ہی غیرمعمولی ہلچل پائی جا رہی تھی۔ علی الصبح سوڈانی دارالحکومت خرطوم میں وزارت دفاع کے کمپلیکس کے باہر فوج اور دیگر سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کی تعیناتی کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق خرطوم کی اہم سڑکوں اور پلوں پر بھی فوجی دستے تعینات ہیں۔

یہ امر اہم ہے کہ فوج کی تعیناتی کے وقت بھی ہزاروں سوڈانی مظاہرین وزارت دفاع کی عمارت کے باہر کئی دنوں سے دھرنا دیے ہوئے ہیں۔ اس کا ابھی نہیں بتایا گیا کہ عمر البشیر کے مستعفی ہونے کے بعد یہ مظاہرین واپس لوٹ گئے ہیں یا ابھی کسی واضح اعلان کے منتظر ہیں۔ یہ ہزارہا شہری ملکی صدر عمر البشیر کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے تھے۔

سرکاری میڈیا پر یہ اعلان بھی کیا گیا کہ ملکی مسلح افواج کی جانب سے جلد ہی ایک اہم اعلان کیا جانے والا ہے۔ اس اعلان کے بعد سے عوام میں یہ تاثر پیدا ہو گیا تھا کہ عمر البشیر کی حکومت ختم ہو گئی ہے اور ان کا یہ تاثر درست ثابت ہوا۔