تحریر : جاوید ملک شاہراہ دستور کو ابھی یہ منظر دیکھنا بھی باقی تھا۔ اپنی بے بسی، تذلیل اور بے یقینی کا ایسا تماشہ کرتے لوگ بھی چشم فلک نے شاید پہلی بار ہی دیکھے ہونگے۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کی پارکنگ میں درجن کے لگ بھگ لوگ باقاعدہ تقریب کا ماحول بنائے بیٹھے تھے ، کیک لایا گیا ، موم بتیاں جلائی گئی تالیاں پیٹی گئیں اور پھر کیک کٹ گیا۔
شور شرابہ نے میڈیا کے نمائندوں کو بھی متوجہ کرلیا ، کیمروں کے فلیش جلنے بجھنے لگے ۔۔۔مگر یہ کس چیز کی تقریب تھی کسی کی سالگرہ یا کچھ اور ؟صحافیوں کا سسپنس بہاولپور کے اس عمررسیدہ شخص نے توڑا جس کے الفاظ روح تک کو زخمی کرررہے تھے یوں لگتا تھا جیسے کسی نے کھولتا ہوا سیسہ کانوں میں اُنڈیل دیا ہو ’’ ہمارے کیس کو نناوے سال ہوگئے کوئی فیصلہ نہ ہوسکا آج ہم کیس کے ننانوے سال پورے ہونے پر یہ کیک کاٹ رہے ہیں ‘‘میں اس شخص کے جھریوں بھرے چہرے کو غور سے دیکھ رہا تھا اس کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی،طنزیہ بے بسی اورنظام کا ماتم کرتی ہوئی تکلیف دہ مسکراہٹ، نظام کے شکنجوں میں جکڑے اس شخص میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ کسی کے گلے پڑسکتا ، وہ سختی کے چار الفاظ بھی اپنے لبوں سے ادا نہیں کرسکتا تھا کہ کہیں یہ تو ہین عدالت کے زمرے میں نہ آجائے وہ تو نسل در نسل ذلالت سہنے ٹھوکریں کھانے جھڑکیاں سننے کے بعد بھی انصاف کی راہداریوں سے ٹکریا نہیں تھا امید کو دامن سے باندھ کراُس کا پر دادا، دادا، باپ ان راہداریوں میں ہی کہیں کھو گئے تھے وہ تو مقدمہ کے ننانوے سال مکمل ہونے پر بھی سرجھکا کر کیک ہی کاٹ سکتا تھا اس سے بہتر احتجاج کی اس میں ہمت تھی نہ اس کے نتائج بھگتنے کی سکت۔ بہاولپور میں پانچ ہزار چھ سو کنال اراضی کی تقسیم کا یہ مقدمہ قیام پاکستان سے قبل ہی عدالتوں میں ہے ۔ 1918 ء سے زیر سماعت اس مقدمے میں اب ستر سے بھی زائد فریق ہوچکے ہیں اور حصہ داران کی ایک لمبی لسٹ ہے جس میں ظاہر ہے مسلسل اضافہ ہورہا ہے لیکن انصاف نہیں ہورہا ، فیصلہ نہیں ہورہا ۔
یہ کسی ایک مقدمہ کی کہانی ہوتی تو ہم اس کو چونکہ ، چنانچہ ، یوں ، یاں کے بہت سارے سابقے لاحقے لگا کر تاویلوں کے بوجھ تلے دبالیتے لیکن اس عدالتی نظام کی سست روی کی چکی میں پسنے والے درجنوں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں ہیں متعدد مقدمات کی فائلوں پر تو گرد نے تہہ در تہہ ڈیرہ جمالیا ہے برسہا برس سے انصاف کے متلاشی ٹکریں مارتے پھرتے ہیں جبکہ فائلوں میں مکڑیاں جالے بنتی رہتی ہیں ۔ عدالت عظمی سے داد رسی کی امید لگائے قید و بند میں کئی لوگ زندگی کی سانسیں ہار جاتے ہیں مگر مقدمات کی تاریخیں چلتی رہتی ہیں ۔ مارچ2007 میں اس ملک کے اندر دو تحریکوں نے جنم لیا ۔ چیف جسٹس آف پاکستان چوہدری افتخار کی معذولی سے عدلیہ بحالی تحریک کا آغاز ہوا۔ وکلاء تحریک میں سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں کے کارکنان کی شمولیت سے جمہوریت بحالی تحریک بھی زور پکڑ گئی چونکہ دونوں تحریکوں کا ہدف آمر پرویز مشرف تھا اس لیئے مقاصد جدا ہونے کے باوجود یہ تحریکیں ساتھ ساتھ آگے بڑھیں۔ چوہدری اعتزاز احسن ، علی احمد کرد،شیخ احسن الدین ، ریاست علی آزاد اور دیگر وکلاء راہنماؤں نے اپنے جوش خطابت سے عام آدمی کو یقین دلایا کہ عدلیہ کی بحالی ان کی منزل اور ان کی حسرتوں کی تعبیرہے یہ پر خطر ، کھٹن اور خونی تحریک تھی مگر جو خواب دکھائے گئے تھے وہ اس قدر پرکشش تھے کہ عوام نے آمریت کا کوئی ہتھکنڈا چلنے نہ دیا پھر جمہویت بھی بحال ہوئی اور تھوڑی بد مزگی کے بعد عدلیہ بحالی کا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہوگیا۔
مگر پھر کیا ہوا؟۔۔۔ اختیارات کی رسہ کشی ، مفادات کے گھناؤنے داؤ ، اناؤں کی وحشی جنگ ۔۔۔ جس میں ہار صرف عام آدمی کے حصے میں آئی جس کے سپنے کرچی کرچی ہوگئے وہ ایک بار پھر لٹ گیا ، بے وقوف بن گیا ، ہاتھ ملتا رہ گیا ۔ ماں جیسی عدلیہ کا وعدہ کرنے والے ماں جیسی تو دور سوتیلی ماں جیسی عدلیہ بھی ان بدنصیوں کو نہ دے پائے ۔ بلند و بالا دعوے کرنے والے قانون دانوں نے بھی دامن جھاڑا ، تیوریاں چڑھائیں اور کسی نئی کہانی کی تلاش میں نکل گئے کیونکہ یہ مال تو اب بکنے کے قابل نہیں رہا تھا ۔ رہ گئے بے چارے عوام تو انہیں پرانی خواری پر ہی گزارہ کرنا تھا سو چند روز منہ چڑھانے کے بعد واپس اپنی اوقات پر آگئے ۔
بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں کوئی ادارہ اپنا کام احسن طریقے سے سر انجام دینے کیلئے تیار نہیں ہر ادارے کو اپنے دائرہ سے نکل کر فاؤل کھیلنے میں ہی مزہ آتاہے ۔ کاش 2007کی اس تحریک کے بعد سیاست دان اپنے حصے کا کام کرتے اور نظام میں موجود خامیوں کو درست کرکے عام آدمی کو سکھ کا سانس لینے کا موقعہ دیتے جبکہ عدلیہ اپنی پیچیدگیوں کو آسانیوں میں بدلتی کورٹ کچہریوں میں بہت نچلی سطح سے کرپشن کا جو نیٹ ورک بہت اوپر تک پھیلا ہوا ہے کا سد باب کیا جاتا تو شاید آج پاکستان کا منظر کچھ اور ہوتا مگر افسوس کہ اس دیس میں ہر تحریک کو کچھ ابن الوقت ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھادیتے ہیں اپنا الو سیدھا کرنے والے تحریکوں کے بلند مقاصد کا گلہ گھونٹ دیتے ہیں اور ہر ایسی دھوکہ بازی کے بعد پھر برسوں ایک سکتہ طاری رہتا ہے جو کسی حقیقی تحریک کو جنم نہیں لینے دیتا۔