لاہور: صوفیاء کرام نے ہمیشہ انسانوں کو پیار محبت کی ڈور میں باندھے رکھا تا کہ سب انسان پر امن ماحول میں زندگی بسر کر سکیں۔ صوفیاء کرام نے شریعت پر عمل کرتے ہوئے انسانیت، برداشت، رواداری کو فروغ دیا۔
آج کے پر تشدد دور میں ایک بار پھر صوفیاء کرام کی راہ پر چلنے کی ضرورت ہے۔ ان خیالات کا اظہارکالمسٹ کونسل آف پاکستان(سی سی پی) کے مرکزی صدر ایم اے تبسم نے کیا ۔انہوں نے مزید کہا کہ صوفی ازم دنیاوی الائشوں کے رد عمل کے طور پر سامنے آیا اور پھر ایک تحریک کی شکل اختیار کر گیا ۔اس نے عیسائیت ،بدھ ازم کے کچھ اثرات کو اپنے اندر جذب کیا ۔صوفیا ء کا انسانی سماجیات اور تمدن سے گہرا رشتہ رہا ۔انہوں نے خدا ،انسان ،کائنات اور دنیا کی ہر ذی روح سے پیار کیا۔
ایم اے تبسم نے کہا کہ صوفی ازم ہماری ثقافت کی میراث ہے اور صوفیاء کرام نے ہمیشہ ایثار،محبت غیر مشروط اُنس اور ہم آہنگی کا درس دیا۔تصوف ایک ایسا روحانی درجہ ہے جس کے بعد تمام دنیاوی چیزیں سطحی ہو جایا کرتی ہیں۔ خواجہ غلام فرید کا کلام ہو یا بابا بلھے شاہ کی شاعری ،وہ چاہے شاہ عبد الطیف بھٹائی ہوں یا سچل سر مست ہوں تمام صوفیاء کرام میں ایک ہی چیز بہت واضح اور جامع ہے اور وہ باہم رواداری،احترام اور محبت کا درس ہے۔انہوں نے کہا کہ تصوف انسانی فہم کی وہ روحانی سطح ہے جس میں انسان عقائد سے بالا تر ہو کر انسانیت کی بھلائی اور امن و سلامتی میں گم ہو جاتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ضروری نہیں کہ آجکل کے دور میں کسی قسم کا صوفیانہ طرز عمل کا فقدان ہو ۔محل وقوع ،طریقہ کا ر، تبلیغ و ترویج اور پیغامات کا انداز مختلف ہو سکتا ہے لیکن ہر وہ انسان جو امن و سلامتی ،رواداری اور بھائی چارے کا پرچار کر رہا ہے دراصل تصوف کی راہ پر گامزن ہے۔
ایم اے تبسم نے کہا کہ بر صغیر کی دھرتی ہمیشہ سے صوفیاء کرام کا مرکز رہی ہے اور اس خطے سے ماضی میں ہمیشہ امن و سلامتی کی ہمیشہ تبلیغ و ترویج ہوتی رہی ہے۔ہمارا آجکل کا معاشرہ کسی صورت بھی ان کی تعلیمات سے مبرا یا منحرف نہیں ہو سکتا۔نبی کریم ۖ کی تعلیمات تصوف کے اس اعلیٰ درجے سے منسلک ہیںجن کا تعین عام انسان کی عقل اور دانست سے اونچا مگر انتہائی قابل عمل ہے اور آپ ۖکی ہی تعلیمات کی بنیاد پر تمام صوفیاء کرام اپنی زندگی بسر کر کے اور باقیوں کے لئے مشعل راہ بن کر گزرے ہیں۔