صوفی ازم ایک حقیقت

Data Ali Hajveri

Data Ali Hajveri

میرے کچھ دوست اکثر مجھ سے کہا کرتے ہیں کہ میں صوفیت کی اس قدر شدت سے کیوں وکالت کرتا ہوں جبکہ بیشتر مسلمان نہ صرف اسے مسترد کرتے ہیں بلکہ اسلام سے انحراف بھی کہتے ہیں لیکن میرا انہیں ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ صوفی حضرات اللہ سے محبت کرتے ہیں اللہ سے خوف نہیں کھاتے۔ ان کے لیے محبت ہی ان کا اصل بنیادی اور مرکزی عقیدہ ہے۔

داتا علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ، بلھے شاہ رحمتہ اللہ علیہ بابا غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ جیسے صوفیوں نے ایک مذہب کو دوسرے سے جدا کرنے والی دیواریں گرا کر پیار و محبت کو تمام بنی نوع انساں کے لیے ان کے مذاہب کی بنیاد بنایا۔ ابن عربی نے تو یہاں تک کہہ دیا” حبی دینی و شریعتی ”یعنی محبت ہی میرا دین اور میری شریعت ہے۔

یہ ان حضرات کے لیے بڑی بامعنی بات ہے جو پوری انسانیت میں یقین رکھتے ہیں اور نفرت پر نہیں بلکہ محبت کی بنیادوں پر انسانی تہذیب کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ محبت نہ صرف رواداری کی جانب لے جاتی ہے بلکہ انتہا پسندی، شدت پسندی اور خارجی سچ کی بنیادوں پر تحریکوں کو بھی پسپا کرتی ہے۔ جو شخص پوری انسانیت سے محبت کرتا ہے ہمیشہ داخلی فکر و سوچ اختیار کرتا ہے اور محسوس کرتا ہے کہ سب کچھ خارجی گروہ کی اجارہ داری نہیں ہو سکتا۔

اس حیثیت سے صوفی اپنی کثرتی سوچ کے باعث کہیں زیادہ جمہوری ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ نے ہی رنگا رنگی پید ا کی ہے اور ہمیں اللہ کی تخلیق کے طور پر رنگا رنگی کا احترام کرنا چاہیے۔ وہ شخص جومسلکی یا نظریاتی سوچ کا حامل ہے وہ اختصاص اور امتیاز میں یقین رکھتا ہے اور تنوع کو حقیر گردانتا ہے۔ کیونکہ اس کے نزدیک رنگا رنگی کسی ایک گروہ کی سچائی کی اجارہ داری کے تصور کی نفی کرتا ہے۔

اگر سچ کی سچائی پر خصوصی اجارہ داری نہیں ہے تو کسی بھی فرقہ کو سچ کا علمبردار یا سچائی کا حامل ہونے کا حق حاصل نہیں ہو سکتا۔مزید بر آں صوفیت گہری روحانی فکر پر مبنی ہے اور ہر شخص کے رگ و پے میں رچی بسی اور پنہاں ہے۔ روحانیت ایک بحر اور سمندر کی طرح ہے اور تنگ نظر اصول و قواعد ایسے چھوٹے دریائوں کی مانند ہیں جو ساحلوں سے گھرے ہیں اور ان کا دھارا پہلے ہی سے متعین ہوتا ہے۔اس طرح روحانیت کہیں زیادہ جامع ہے بلکہ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ایسے کئی دریائوں کا سنگم ہے جس میں تمام خصوصیات و خوبیاں بے خودی میں مدغم ہو جاتی ہیں۔

Sufism

Sufism

صرف سمندر باقی رہ جاتا ہے۔ جب مولانا روم سے استفسار کیا گیا کہ ان کی پہچان کیا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ محبت ،کیونکہ محبت تمام شناختوں کا مجموعہ ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محبت ہے کیا؟ اکثر ہم غلطی کر بیٹھتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جسے ہم چاہتے ہیں وہ ہمارے پاس ہو۔ حقیقت میں اس قسم کی سوچ محبت کے قطعی منافی ہے۔ ہم جسے چاہتے ہیں ہمیں اس شخص کی عزت و وقار اور اخلاقی بلندی کا احترام کرنا چاہیے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم اس شخص کو مکمل آزادی دیں۔ جبکہ جہاں اس پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کا جذبہ ہو تو وہاں ہم اس شخص کی آزادی سلب کرتے ہیں۔

اس طرح اگر ایک شخص سمجھتا ہے کہ وہ ایک عورت سے محبت کرتا ہے تو وہ اس وقت تک جائز نہیںہوگی جب تک کہ وہ اسے مکمل آزادی نہ دے اور اس کی دیانتداری کا احترام نہ کرے۔ اسی طرح صوفیائے کرام بھی انہی اصولوں کی بنیاد پر انسانیت سے محبت کرتے ہیں اور وہ ہر مذہب کا احترام کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں محبت اس وقت تک پر خلوص، صاف ستھری اور اصلی نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس میں خلوص شامل نہ ہو۔

اس محبت میں دور دور تک خود غرضی کا شائبہ تک نہ ہو۔ محبت کو خالص بنانے کے لیے تمام نفسانی خواہشات چھوڑنا پڑتی ہیں اسی لیے صوفیائے کرام ترک دنیا کے قائل ہیں اور اس ترک کی اعلیٰ قسم کو ترک ترک بتایا گیا ہے یعنی وہ اپنی محبت کا کوئی صلہ طلب نہ کرے۔ وہ قطعی طور پر برضا و رغبت اور ہنسی خوشی ترک ہونا چاہیے۔

اس طرح ہر صوفی محض اللہ کی خاطر، جس سے کہ وہ بے پناہ محبت کرتا/ کرتی ہے اپنا مادی آرام و آسائش اور خواہشات نفسانی کو ترک کر دیتا ہے۔ سرمد شہید ، جن کا اورنگ زیب نے اس لیے سر قلم کر دیا تھاکہ انہوں نے کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ(نہیں ہے کوئی سوائے اللہ کے) پڑھنے سے انکار کر دیا تھا اور صرف لا الہ ( نہیں ہے کوئی اللہ) پڑھا تھا۔جب ان کا سر تن سے جدا کرنے کے لیے ان پر تلوار تان کر یہ معلوم کیا گیا کہ الا اللہ( سوائے اللہ کے) کیوں نہیں کہا تو انہوں نے جواب دیا کہ میں الا اللہ کیوں کہوں جبکہ ابھی تک میرے دل میں خواہشات کے بہت سے خدا ہیں۔ اس طرح سرمد نے یہ ثابت کیا کہ جب میرے دل میں خواہشات کے اتنے خدا ہیں تو اللہ سے میری محبت میں خلوص کیسے پیدا ہو سکتا ہے۔

اس طرح ایک سچے مومن یا ایک اللہ سے محبت کرنے والے کواپنے دل میں بسے خواہشات کے خدائوں سے اپنے دل کو پاک کرکے اپنی تطہیر کرنا ہوگی۔ اس طرح خود غرضی کی خواہشات سے آلودہ محبت کی سب سے نچلی سطح ہے اور محبت کی اعلیٰ قسم یہ ہے کہ تمام خواہشات دل سے نکال پھینکی گئی ہوں۔ اس طرح صوفی حضرات جو تمام خواہشات کو مار دیتے ہیں محبت کی خالص قسم پانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

کچھ لوگ صوفی اسلام کو یہ کہہ کر مسترد کر دیتے ہیں کہ ان کے خیال میں ذاتی خواہشات اور اغراض کی تکمیل اور دفع پریشانی و مصائب کے لیے ان صوفیوں سے فریاد کی جاتی ہے یا ان کے وسیلہ سے خدا سے مانگا جاتا ہے۔

میرا اس شفاعت اور مدد کے لیے التجا کرنے اور ان سے فریاد کرنے کے معاملہ سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ میں تو ہر رنگ و نسل اور ذات کے جذبے سے بالاتر ہو کر پوری انسانیت سے بے غرض و بے لوث اور پورے خلوص ونیت کے ساتھ سچی محبت کرنے کے اصول پر کاربند ہونے کا درس دینے کی وجہ سے صوفیت کو پسند اور قبول کرتا ہوں۔

M A Tabassum

M A Tabassum

تحریر : ایم اے تبسم (لاہور)
مرکزی صدر،کالمسٹ کونسل آف پاکستان CCP
email: [email protected],
0300-4709102