یوں تو وطن عزیز کے ہر شعبہ ہائے زندگی میں وسائل کم اور مسائل زیادہ ہیں لیکن صحت کے شعبہ میں مسائل کی زیادتی دیکھنے کو ملتی ہے ناخواندگی کے باعث صحت کے متعلق افراد میں معلومات کی کمی ہے صحت و تندرستی کے لئے ہرآدمی تک آگاہی وقت کی ضرورت ہے جس طرح سے بیماریوں کے پھیلنے کا تناسب بڑھتا جا رہا ہے اس طرح آنے والے سالوں میں ہمارے ملک کا ہر فرد تندرستی سے دور ہوتا جائے گا۔
ذیا بیطس جسے عام زبان میں شوگر بھی کہا جاتا ہے یہ ایک قدیم مرض ہے یہ مرض ملک میں بڑی تیزی سے اپنے قدم جما رہا ہے اس کی بڑی وجہ بازاری ناقص غذائوں کے ساتھ ساتھ ہمارا رہن سہن اور طرز زندگی بھی ہے شوگر ایک ایسا عارضہ ہے جو آنے والے وقت میں کئی اور امراض میں بھی مبتلا کردیتا ہے شوگر ہمارے خون کا انتہائی لازمی اور مستقل جزو ہے ہم جتنی بھی نشاستہ دار غذائیںکھاتے ہیں وہ ہماری آنتوں میں جا کر شوگر میں تبدیل ہو جاتی ہیں اور یہی شوگر بعد میں خون میں شامل ہو جا تی ہے ہمارے جسم کے اکثر اعضا اسی شوگر کو ایندھن کی طرح جلا کر توانائی حاصل کرتے ہیں۔ اور اگر خون میں شوگر موجود نہ ہو، یا بہت زیادہ کم ہو جاتے تو ان اعضا کا کام رْک جاتا ہے۔ لیکن ایک نارمل انسان کے خون میں شوگر کی مقدار قدرت کی طے کی ہوئی حدوں کے اندر ہی رہتی ہے، جبکہ ذیابیطس کی حالت میں شوگر نارمل حد سے بڑھ جاتی ہے شوگر لبلبے میں پیدا ہونے والے ہارمون انسولین کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہے انسولین کی یہ کمی دو طرح کی ہو سکتی ہے۔نمبر ایک، پنکریازسے انسولین کی پیداوار کم یا ختم ہو جاتی ہے نمبردو،پنکریازسے انسولین تو پیدا ہوتی رہتی ہے، لیکن کسی وجہ سے اسکا اثر کم ہو جاتا ہے ایسی کیفیت کو انسولین کے بے اثری بھی کہا جاتا ہے ہم اسے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک ایسی حالت ہے جو کسی شخص کے خْون میں اِنسولین کی کمی سے یا جب جسم کو اپنے پیدا کیے ہوئے اِنسولین کو استعمال کرنے میں دِقّت ہونے پر واقع ہوتی ہو۔
انسانی جسم میں پائی جانے والی شوگر مصنوعی شوگر سے بالکل مختلف چیز ہے یہ ایک قدرتی کاربوہائیڈریٹ ہے جسے ہمارا جسم بطورِ توانائی استعمال کرتا ہے خون میں سطح گلوکوز کی تضبیط کا کام پنکریازمیں تیار ہونے والا ایک انگیزہ کرتا ہے جسے انسولین کہتے ہیں ذیابیطس کی پہلی قسم، انسولین کی کمی جبکہ دوسری قسم جسم کا انسولین کے لیے کم استجابت کی جہ سے ہوتی ہے یہ دونوں وجوہات افراط دموی شکر کی طرف لے جاتے ہیں افراط دموی شکر جسم میں ذیابیطس کی علامات پیدا کرتا ہے ذیابیطس سے عموماً مراد شکری ذیابیطس ہی ہوتا ہے تاہم ذیابیطس کی کئی اقسام ہیں جن میں سب سے عام سادہ ذیابیطس ہے جس میں کثرت سے پتلا پیشاب خارج ہوتا ہے سادہ ذیابیطس گردے یا غدہ نخامیہ”پیچوٹری گلینڈ ”کی وجہ سے ہوتا ہے ذیابیطس کی پہلی قسم پنکریاز میں موجود بیٹا خلیات کی خرابی ہے جس سے انسولین کی مقدار میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔شوگر عموماً وراثتی اور ماحولی (حصولی) وجوہات کے ملاپ کی وجہ سے ہونے والے بے ترتیب یا اضطرابی، استقلاب کا متلازمہ ہے جس میں دموی شکر کی سطح میں غیر معمولی اِضافہ ہوجاتا ہے۔
رات کو تسلی بخش نیند نہ لینے سے بلڈ شوگر کالیول بڑھ جاتا ہے کیونکہ کم نیند کے باعث جسمانی تنائو بڑھ جاتا ہے ایسے افراد جو شوگر کے مریض ہوں وہ جب سگریٹ نوشی کریں گے تب شوگر بڑھ جاتی ہے کیونکہ تمباکو میں نیکوٹین ہوتی ہے نیکوٹین جب خون میں شامل ہوگی تو اس سے سنگین پچیدگی پیدا ہوتی ہے شوگر والے مریض جب سیاہ کافی کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں تب بھی شوگر لیول بڑھ جاتا ہے چربی والی غذائوں سے 32فیصد تک شوگر بڑھنے کا امکان ہوتا ہے لہذا اس مرض میں مبتلا افراد کو اپنی غذائوں میں چربی کا استعمال نہیں کرناچاہئے شوگر والے مریضوں کا مصنوعی مٹھاس سے گریزضروری ہے کیونکہ مصنوعی مٹھاس سے بڑی تیزی سے شوگر بڑھتی ہے کولڈ ڈرنکس اور ڈائٹ والے کولڈ ڈرنکس سے پرہیز ضروری ہے امریکن جرنل آف کلینیکل نیوٹریشن میں پبلش ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق جو لوگ ناشتہ ترک کردیتے ہیں ان میں 21فیصد تک شوگرمیں مبتلا ہونے کا خطرہ منڈلاتا ہے۔
شوگر میں مبتلا افراد میں پیاس کی زیادتی پائی جاتی ہے جو زیادہ مائع جسم میں لینے کا سبب بنتی ہے زیادہ پانی پینے سے پیشاب کی مقدار بڑھ جاتی ہے معمول سے ہٹ کا زیادہ پیشاب آتا ہے نظرکی کمزوری شروع ہوجاتی ہے وزن دن بدن کم ہونا شروع ہوجاتا ہے تھکاوٹ،چڑچڑاپن ،زخم کے مندمل ہونے میں دیر لگنا،پائوں کے تلووں میں جھنجھناہٹ و سن ہونا،بھوک کا زیادہ لگنا،بے سکونی ،بے چینی اور ڈپریشن والی علامات پیدا ہوجاتی ہیںشوگر اور ڈپریشن کا آپس میں بہت گہرا تعلق دیکھنے کو ملتا ہے یہ بھی مشاہدے کی بات ہے کہ ڈپریشن میں مبتلا افراد میں شوگر جلد ہوجاتی ہے جبکہ شوگر والے افراد بھی ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔
پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد سات کروڑ سے زائد ہو چکی ہے اس لحاظ سے ہمارا وطن ایشیا میں پہلے نمبر پرآگیا ہے اس کے باوجود وفاقی و صوبائی سطح پر ذیابیطس کنٹرول کا کوئی پروگرام نہیں ہے پاکستان میں ہر تیسرا شخص اس موذی مرض میں مبتلا ہے اور سالانہ 80 ہزار سے زائد افراد شوگر اور اس سے متعلقہ بیماریوں کے باعث اموات کا شکار ہورہے ہیں عالمی ادارہ صحت کے مطابق شوگر کی بیماری پر کنٹرول نہ کیاگیا تو 2040 تک پاکستان شوگر کی بیماری کے حوالے سے دنیا کا آٹھواں بڑا ملک بن جائے گا دنیا بھر میں اموات کا باعث بننے والی 10 بیماریوں میں سے شوگر کا چھٹا نمبر ہے دنیا بھر شوگر اور اس سے متعلقہ بیماریوں کی وجہ سے سالانہ 50 لاکھ افراد موت کا شکار ہو رہے ہیں اور دنیا بھر میں شوگر کے مریضوں کی تعداد 41 کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے، جو 2040 تک 64 کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ وطن عزیز سمیت دنیا بھر میں شوگرسے بچاؤ کا عالمی دن چودہ نومبر کو منایا جاتا ہے، یہ فریڈرک بینٹنگ کا یوم پیدائش بھی ہے جنہوں نے انسولین ایجاد کی، اس طرح اس دن اس عظیم ماہر طب کو خراج تحسین بھی پیش کیا جاتا ہے، مگر اس دن کا بنیادی مقصد ذیابیطس کے حوالے سے آگاہی پیدا کرنا ہے۔