تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری کسان سخت مشکلات میں گھر چکے ہیں جتوئی ضلع مظفر گڑھ ،چنی گوٹھ ضلع بہاولپور اور کوٹ سمابہ ضلع رحیم یار خان کی دو سال قبل قائم ہونے والی تینوں شوگر ملوں کو عدالتی فیصلے کے ذریعے بند کر ڈالا گیا ہے ان تین ملوں کی موجودگی میں جنوبی پنجاب کے کسان ایک لاکھ ستر ہزار ایکڑ پر زائد گنا کاشت کر چکے ہیں اب اس کی فروختگی کا مسئلہ در پیش ہے اب یہ حکمرانوں کی ذمہ دار ی ہے کہ وہ لاکھوں ایکڑ اضافی گنے کو تلف اور بر باد ہونے سے بچائیں حالات کی سنگینی کا جائزہ لیں یا پھر سپریم کورٹ سویو موٹو ایکشن لے کر رواں کرشنگ سیزن کے لیے ان ملز کو چلا دے سندھ کی نصف سے زائد ملزکے آصف زرادری دھونس دھاندلیوں سے مالک بن چکے ہیں باقی کئی پر بھی ان کا چوتھائی حصہ موجود ہے بقیہ تین چار ملیں بھی پی پی پی کے افراد کی ہی ملکیت ہیں اور سندھ میں حکمرانی بھی اس پارٹی کی ہے ۔پنجاب میں ایک درجن سے زائد شوگر ملیں نوازشریف خاندان اور ان کے رشتہ داروں کی ہیں ۔بقیہ پی ٹی آئی کے جہانگیر ترین اور ق لیگ کے مخصوص خاندان کی ہیں وفاقی حکومت کی کابینہ کمیٹی نے15لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کے لیے10.70ریبیٹ کا اعلان کیا زرادری کی ذاتی دلچسپیوں سے سندھ کی پانچ لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کے لیے9.3روپے ریبیٹ دیا گیا اور وہ مزید ریبیٹ مانگ رہا ہے۔
غرضیکہ شوگرمافیاتیس ارب سے زائد سرکاری رقوم ہضم کرنا چاہتا ہے۔ سرکاری طور پرگنا کا ریٹ180روپے مقرر ہے مگر کہیں 120روپے سے زائد روپے پر گنا خریدا نہیں جا رہا مگر ملز کو دیر سے چلانا یا گو سلو پراسس اختیار کرنا ان سود خور صنعتکاروں کا ہمیشہ سے غلیظ ترین دھاندلیوں سے بھرپور پروگرام ہوتا ہے تاکہ گنا خاصا سوکھ کر اسکا وزن کم ہو جائے اور پھر اونے پونے داموں خرید لیاجائے اور اسکی رقوم کا ادھار کئی سال بعد ہی ادا کرتے ہیں اور چھوٹے لاوارث کسان تو سی پی آر لے کرملز کے سینکڑوں چکر سالانہ لگا کر بھی رقوم وصول نہیں کرپاتے ملک بھر کی ملز نے کسانوں کی پندرہ ارب سے زائد رقوم دبا رکھی ہیںچونکہ یہ ملز سبھی برسر اقتدار ٹولوں یا ان کے حواریوں کی ملکیت ہیں اس لیے ان سے کون رقوم نکلوا کر کسانوں کو ادا کرے گا یہ ایسا اہم سوال ہے جس کا کوئی حل کسانوں کو نہ پہلے کبھی ملا ہے نہ آئندہ مل سکے گاکہ برسر اقتدار افراد اور ان کے نام نہاد ساتھیوں سے رقوم نکلوانا غالباً آسمان سے تارے توڑ لانے کے مترادف ہے کسانوں کی سبھی تنظیمیں کسان بورڈ ،کسان اتحاد ،ایگری فورم ،کسان فائونڈیشن ،انجمن کاشتکاران و دیگر بھرپور احتجاج کر رہی ہیں دھرنے تک بھی دے ڈالے سڑکیں بند کر کے دیکھ لیں مگر ان سبھی کی آوازصدا بہ صحرا ثابت ہوچکی ہے۔
کاشتکاروں اور ان کے بال بچوں پر سندھ میں ہونے والا لاٹھی چارج سخت ترین تشدد ہمارے حکومتی وریاستی اداروں کے منہ پر طمانچہ ہے کہ سود خور صنعتکار اپنی مرضی سے ہی ملیں چلائیں گے دوسری طرف شوگر ملز مالکان ہر سال گنا کم قیمت پر خریدتے اور چینی مہنگی بیچتے ہیں کہ صنعتکاروں کی مختلف تنظیمیں ایکا کرکے ایکس مل چینی کا زیادہ ریٹ طے کر ڈالتی ہیں اس طرح ملک بھر کے خریداروں کو نہ کوئی پوچھتا اور نہ ہی ان کی اشک شوئی کرتا ہے۔
شوگر ملز مافیا کو نتھ ڈالنا ہی اس کا واحد حل ہے راقم کئی دفعہ “چینی کی بے چینی “اور” واحد حل یونینز کا کنٹرول “نامی کالم لکھ چکا ہے جس میں گزارشات کی تھیں کہ ان سب شوگر ملز کو قومی تحویل میں لینا مسئلہ کا قطعاً حل نہ ہے بھٹو دور کی طرح ایسا کیا گیا تو نودولتیے سود خور سرمایہ دار صنعتکاروں سے ملوں کی ملکیت نکل کر حکومتی کرپٹ بیورو کریسی اور ان کے کارپردازوں کے ہاتھ میں آجائے گی جس کے منتظم بھی سرکاری افسر ہوں گے وہ اپنی من مانیاں کرکے گنا بھی کم ترین قیمت پر خریدیں گے اور چینی کا ریٹ بھی موجودہ سے بہت زیادہ مقرر کریں گے پھر یہ ریٹ کسی کے قابو میں نہ رہے گا۔ایک سیزن مل چلا کر یہ اس کے پرزے تک بھی بیچ کھائیں گے اگلے سال کروڑوں روپے لگا کر بھی یہ ملیں شاید چلنے کے قابل نہ رہیں ایسی صنعتوں کا اس کے علاوہ کوئی حل نہ ہے کہ انہیں مزدوروں کی منتخب یونینوں کے حوالے کیا جائے جس میں مزدور دس فیصد منافع کے حصہ دار ہوںاس طرح ملیں گنا بھی مقررہ قیمت پر خریدیں گی اورچینی کا بھی ریٹ مناسب رہے گامزدوردن رات محنت کرکے اس کی پیداوار بڑھائیں گے تاکہ انہیں تنخواہ میں بھی مزید بڑھوتری مل سکے اور انہیں منافع کی رقم علیحدہ ملے گی کاشتکاروں کو بھی سی پی آر اٹھا کر ملز کے چکر نہ لگانے پڑیں گے اور ان ملز کا کنڑول بھی20,25فالتو منافع خورمالکوں کے ہاتھوں سے نکل کر منتخب مزدور یونینوں کے حوالے ہوجائے گا اب تو شگر ملوں کی بندش کا مسئلہ ہو،گنے کی ناجائز کٹوتیوں اور پرمٹوں کی غیر منصفانہ تقسیم کے معاملات پر کاشتکاروں کا سخت استحصال ہو رہا ہے اور جنوبی پنجاب اور سندھ میں تو بعض کاشتکاروں نے زمین خالی کروانے کے لیے گنا کی فصلوں کو آگ لگانا شروع کردی ہے۔
بحر حال شوگر ملز مافیا حکومتی دخل اندازیوں ،مل مالکان کی نام نہاد تنظیموں کی اجارا داریوں سے جان چھڑوانے کے لیے امسال سے ہی ملوں کا مکمل کنٹرول منتخب مزدور یونینوں کے حوالے کردیے جائیں تو ایک ہی سال میں یہ نتیجہ خیز ثابت ہو جائے گا شوگر ملز مافیاکے لٹیرے سود خور صنعتکار تو لاکھوں ٹن چینی بر آمد کرنے کے لیے حکومت سے سبسڈی بھی وصول کرتے ہیں اور پھر کل کلاں چینی کی کمی کا رونا روکر پھر در آمد کا ڈرامہ رچاتے ہیں جس سے چینی کی قیمتیں عملاً بڑھتی چلی جاتی ہیں ہر سرمایہ دار صنعتکار سود پر بنکوں سے اربوں لے کر ہی نئی مل لگاتا ہے پھر واپس نہ کرکے رقوم ہڑپ کرتا اور بااثر ہونے کی وجہ سے قرضے معاف کرا لیتا ہے اور حکومت سے مزدوروں کی بیروزگاری کابہانہ لگا کر کروڑوں حکومتی امدادملز کی مرمت وغیرہ کے نام پر وصول کرتا ہے جیسے جیسے سود بڑھتا چلا جاتا ہے ویسے ہی چینی کی قیمت بھی بڑھتی ہے غرضیکہ دنیا کے غلیظ ترین سراسر غیر اسلامی نظام سود کے ذریعے صارفین کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جاتا ہے کسی حکمران نے بھی اس نظام کو ختم کرنے کی قطعاً کوشش نہیں کی جب کہ سود خدا اور اس کے رسول کے خلاف واضح جنگ ہے ۔سودی نظام سے امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہورہے ہیں۔جنوبی پنجاب کی ان نئی تین شوگر ملوں کو حال ہی میں سیاسی طورپر نا اہل قرار دیے گئے جہانگیر ترین نے ہائیکورٹ کے حکم سے بند کروایا تھا اسے سرمایہ کا گھن چکر (Capital Ugly Circle of ) کہتے ہیں جس کا نتیجہ زیادہ منافع کمانے اور غریب کا خون چوسنے پر منتج ہوتا ہے۔