تحریر : پروفیسر رفعت مظہر یوں تو گزشتہ ایک دہائی سے پاکستان ”طالبان نامی”خودکُش بمباروں کے حوالے سے خود کفیل ہے لیکن ہمارے سیاسی ”خودکُش” بھی کسی سے کم نہیں۔ خودکش بمباروں کی اِس قسم کی سربراہی ہمارے کپتان صاحب کے پاس ہے کیونکہ اُنہیں ”سربراہی” کا شوق ہی بہت ہے ۔ کپتان صاحب کئی خودکش حملے کر چکے ہیں لیکن حیرت ہے کہ ابھی تک اُن کی سیاسی موت واقع نہیں ہوئی البتہ ملک کا بہت سا نقصان ضرور ہوگیا ۔ اب اُنہوں نے کہا ہے کہ وہ خودکُش حملے کر کر کے تھک چکے ہیں اِس لیے 2 نومبر 2016ء کو اسلام آباد پر آخری حملہ کریں گے، پھر آر یا پار۔ البتہ اُنہوں نے نوازلیگ کو اِس آخری حملے سے بچنے کی ایک راہ بھی دکھائی ہے ۔ اب یہ نوازلیگ پر منحصر ہے کہ وہ خاںصاحب کی ”فراخدلانہ پیش کش” قبول کرتی ہے یا نہیں ۔ خاںصاحب نے کہا ہے کہ میاں نوازشریف استعفےٰ دے دیں یا تلاشی دے دیں تو اسلام آباد پر خودکُش حملہ نہیں کیا جائے گا۔
میاں صاحب کے استعفے کی بات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن تلاشی والی بات ہمارے سَر سے کئی کلومیٹر اوپر سے گزر گئی ۔ ہم اُس وقت سے سوچ رہے ہیں کہ کپتان صاحب کیا تلاش کرنے کے چکر میں ہیں؟ ۔ اگر وہ وزیرِاعظم ہاؤس کی تلاشی کے طلبگار ہیں تو یقیناََ وہ ”مسندِاقتدار” کی تلاش میں ہوںگے لیکن وہ تو میاں صاحب نے سینت سنبھال کے سات پردوں میں چھپا رکھی ہے اور اگر جاتی اُمرا والے گھر کی تلاشی مقصود ہے تو پھروہ یقیناََاُن ڈالروں سے بھرے سوٹ کیسوں کی تلاش میں ہوں گے جو میاں صاحب نے آب شور کمپنیوں سے حاصل کیے ۔ اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ میاں صاحب نے اپنے گھر میںسوٹ کیس چھپا رکھے ہوں تاکہ کپتان صاحب آسانی سے مالِ مسروقہ بَرآمدکر لیں۔ اگر وہ میاں صاحب کی جیبوں کی تلاشی چاہتے ہیں تو ہم اُنہیں یقین دلاتے ہیں کہ اُنہیں سخت مایوسی ہوگی ۔ میاںصاحب سے تو پرویزمشرف جیسا آمر اور کائیاں شخص کچھ اُگلوا سکا ، نہ نکلوا سکا ، پھر بھلا کپتان صاحب کِس کھیت کی مولی گاجر ہیں۔ اِس لیے تلاشی کی بات تو وہ رہنے ہی دیں تو بہتر ہے۔
رہی استعفےٰ دینے کی بات تو وہ بھی ناممکن ہے کیونکہ میاںصاحب نے ساری جماعتوں کو اپنے ساتھ ملا رکھا ہے ۔ پیپلزپارٹی میں پاناما پیپرز کے معاملے میں کچھ ہلچل نظر آئی تھی لیکن خاںصاحب نے مائنس وَن کا فارمولا پیش کرکے اُسے بھی ناراض کر دیا ۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کو مشورہ دیا کہ وہ آصف زرداری صاحب کو ”مائنس” کر دیں ۔ اب پیپلزپارٹی نوازلیگ کی بجائے ڈنڈے لے کر تحریکِ انصاف کے پیچھے دوڑ رہی ہے ۔ سیاسی کزنز ”دیت” کی اگلی قسط وصول کرکے اپنے ملک سدھار چکے ۔ اکابرینِ تحریکِ انصاف کے منتوں ترلوں اور لندن تک پیچھا کرنے کے باوجودعلامہ صاحب نے اُنہیں ٹکا سا جواب دے دیا ۔ لگتا ہے کہ اب کی بار مولانا کے ہاتھ موٹی رقم لگی ہے ، ہو سکتا ہے کہ دیت کی دو اقساط اکٹھی مِل گئی ہوں۔ اے این پی خود پشاور بند کرنے کے چکر میں ہے ، مولانا فضل الرحمٰن ”ڈنڈ بیٹھکیں” لگا رہے ہیں ۔ وہ سوچ رہے ہیں کہ چلتے چلتے اگر خیبر پختونخوا کی حکومت ہاتھ لَگ جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ جماعت اسلامی اِس آخری خودکُش حملے میں خاںصاحب کا ساتھ دینے کو تیار نہیںاور ایم کیو ایم خود ”وَخت” میں پڑی ہوئی ہے ،اِس لیے وہ کسی قسم کی شرارت کی پوزیشن میں نہیں۔ باقی بچی قاف لیگ تووہ ”تین میں نہ تیرہ میں”۔البتہ لال حویلی والے کی جماعت خاںصاحب کے ساتھ ڈَٹ کر کھڑی ہے لیکن یہ جماعت پائی کہاں جاتی ہے اگر کسی کو خبر ہو تو ہمیں ضرور بتائے قصّہ مختصر یہ کہ اِس بار بھی کپتان صاحب ”سولو فلائیٹ” ہی کریں گے۔
Imran Khan
جب سے کپتان صاحب نے یہ اعلان کیا ہے کہ اسلام آباد پر خودکُش حملہ آخری ہوگا ، ”سونامیے” بہت پریشان ہیں۔ میری چونکہ ساری ہمدردیاں تحریکِ انصاف کے ساتھ ہیں اِس لیے میں نے ایک اُداس سونامیے سے اِس اُداسی کا سبب جاننا چاہا تواُس نے جَل بھُن کر ”سیخ کباب” ہوتے ہوئے کہا کہ اگر واقعی کپتان صاحب کا یہ حملہ آخری ہوا تو پھر اُن کیا بنے گا ۔ پھر وہ کہنے لگا کہ وہ تو میوزیکل کنسرٹ کے شوق میں کپتان صاحب کے دھرنوں میں جایا کرتے تھے ۔اب اگر یہ آخری داؤ ہوا تو میوزیکل کنسرٹ تو ختم ہم نے اُسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ اوّل تو ہمارے کپتان صاحب یوٹرن لینے میں یَدِطولیٰ رکھتے ہیں اِس لیے یہ آخری حملہ ہو ہی نہیں سکتالیکن اگر یہ آخری ہی ہوا تو اِ س کا مطلب یہ ہے کہ خاںصاحب کی وزارتِ عظمیٰ پکّی، کیونکہ اُنہوں نے کہا ہے کہ اب کی بار میاں نوازشریف صاحب کو گھر بھیج کر ہی لوٹیں گے ۔ اب ظاہر ہے کہ میاں صاحب کے بعد کپتان صاحب کی باری تو بنتی ہی ہے۔ ایسی صورت میں جب ہمارے کپتان صاحب قوم سے خطاب کرنے پی ٹی وی پر تشریف لایا کریں گے تو قومی ترانے کی جگہ ”اَج میرا نَچنے نوں جی کردا” چلے گااور جہاں خاںصاحب سانس لینے کے لیے رُکے تو فوراََ عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کی مدھر آواز سنائی دے گی ۔اِس لیے پریشانی کی کوئی بات نہیں۔
ویسے تو ہماری نوازلیگ بھی کسی خودکُش بمبار سے کم نہیں ۔ میاں برادران نے دوبارہ جَلاوطنی کے لیے زور تو بہت مارا اور حصولِ مقصد کے لیے اسحاق ڈار کو وزیرِخزانہ بھی بنا دیالیکن اُن کی دال گلی نہیں ۔ خاںصاحب شہروں پہ حملہ آور ہوتے ہیں لیکن ہمارے اسحاق ڈار تو ہر سال جون میں پوری قوم پر حملہ آور ہو جاتے ہیں ۔ کوشش اُن کی یہی ہوتی ہے کہ ایسا بجٹ پیش کیا جائے جو میاں برادران کا بستر بوریا گول کر دے لیکن یہ قوم بھی اتنی صابر ہے کہ تھوڑی بہت ”چوںچاں” کے بعد خاموش ہو جاتی ہے میاں برادران خود بھی کوشش میں ہوتے ہیں کہ اِس نامعقول اقتدار سے جان چھوٹ ہی جائے تو بہتر ہے ۔ اُنہوں نے اپنی حکومت کے ابتدائی دنوں میں ہی ”سانحہ ماڈل ٹاؤن” کیا تاکہ اقتدار سے جلد جان چھڑائی جا سکے لیکن علامہ طاہرالقادری ”دَیت” پر راضی ہو گئے ۔ پھر اسلام آباد ڈی چوک میں پاکستان کی تاریخ کا طویل ترین دھرنا ہوا ۔ تب تو بڑے بڑے تجزیہ نگاروں کے ”ارسطوانہ” تجزیے یہی تھے کہ اب تو حکومت گئی لیکن جمہوریت پر غیر متزلزل یقین رکھنے والے جنرل راحیل شریف ڈَٹ گئے اور امپائر کی انگلی کھڑی نہ ہو سکی۔
تَب سے اب تک ہم اپنے کالموں میں یہی لکھتے آئے ہیں کہ حکومت اور فوج ایک صفحے پر ہے اور ”شریفین” کی آپس میں گاڑھی چھنتی ہے لیکن اب ”ڈان نیوز” میں چھپنے والی خبر کے بعد ہمارا ایمان بھی متزلزل ہو گیا ہے ۔ عسکری قیادت حکمرانوں سے ”اندر کی بات” بتانے والے کو سامنے لانے کا مطالبہ کر رہی ہے ۔ وہ ڈان نیوز کے رپورٹر نہیں ، ”سورس” تک پہنچنا چاہتی ہے ۔ کورکمانڈرز میٹنگ میں بھی اِس مطالبے کی بازگشت سنائی دی ۔ لیکن سورس تاحال مفقودالخبر ہے۔ ہمارے پاس اِس کا ایک حل تو ہے بشرطیکہ میاں صاحب کو قبول ہو۔ اُنہیں چاہیے کہ چپکے سے عسکری قیادت تک یہ خبر پہنچا دیں کہ اسحاق ڈار ہی اصل” سورس” ہیں جنہوں نے اندرکی بات ”لیک” کی ۔ اِس کا دوہرا فائدہ ہوگا ۔ ایک تو میاں صاحب کی اپنے ”سمدھی” سے جان چھوٹ جائے گی اور دوسرا حکومت بچ جانے کے امکانات بھی روشن ہو جائیں گے۔