تحریر : محمد امجد خان خودکش دھماکوں اور دہشت گردی کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد جو کچھ پاکستانی صوبہ خیبر پختونخوا کے معروف شہر پشاور میں واقع آرمی سکول میں ہوا وہ سبھی کے سامنے ہی ہے اور یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ایسے سانحے قومیں بھولنا بھی چاہیں تو صدیوں نہیں بھُلا سکتیں، جس نے پوری قوم کو یک زبان کرتے ہوئے حکومت کو دہشت گردی کے خاتمے پر مجبور کر دیا اور اِدارے مُلا فضل اللہ کے ذمہ داری قبول کر لینے کے باوجود بھی واقع کے اصل ذمہ داران کی کھوج میں رہے جس کے نتیجہ میں شواہد مِلتے ہی اِن کی روشنی میں اصل ذمہ دار کا چہرہ پوری طرح بے نقاب کرنے کیلئے آرمی چیف نے جب افغان حکومت سے مُلا کی حوالگی کا مطالبہ کیا تو ساتھ ہی بھارت نے بھی حافظ سعید کی حوالگی کا مطالبہ کرکے اپنے چہرے سے خود ہی نقاب اُتار لیا جس کے کچھ ہی یوم بعد آرمی چیف امریکہ روانہ ہو گئے،اور واپس آکر خبر سنائی دی کی سانحہ پشاور کے پیچھے بھارتی ہاتھ پائے گئے ہیںاور شواہد امریکہ کو بھی دے دیئے گئے ہیں
مگر راقم آرمی چیف کے اِس خبر سنانے سے کئی یوم قبل ہی (چور کی داڑھی میں تنکا کے نام سے کالم میں ) یہ انکشاف کر چکا تھا جِس کے بعد دہشت گردی کے خلاف آپریشن شروع ہوگیا ،اورجب یہ آپریشن شروع ہوا تب بھارت میں ہونے والے ممبئی حملوں کو تقریباً دو سال کا عرصہ ہو چکا تھا،جس پر امریکہ و بھارت دونوں ممالک نے ہی بڑے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے بے بنیاد الزام پاکستان کے سر رکھ دیا تھا،جِسے وہ ہماری طرح چند یوم بعد بھولنے کی بجائے اب بھی اچھی طرح یاد رکے ہوئے ہیںاِسی ہی لئے تو اب جب پاکستانی ارکان پارلیمنٹ امریکی دورہ پر گئے تو وہاں امریکی ارکان پارلیمنٹ سے آپریشن اور دہشت گردی کے خاتمہ سے متعلق بات چیت شروع ہوئی تو امریکی ارکان پارلیمنٹ نے پاکستانیوں سے پہلا سوال ہی یہی کیا کہ کہ ذکی الرحمٰن لکھوی پر ممبئی حملہ کا بھارتی الزام ہے مگرپاکستانی عدالتوں نے اِس پر فرد جرم عائد نہیں کیا ؟
جس پر انتہائی دانشور ،غیرت مند،محبِ وطن ،اور صدیوں پرانی باتیں یاد رکھنے والے پاکستانی ارکان پارلیمنٹ نے اُن کے سوال کا جواب تو دے دیا کہ بھارت نے شواہد نہیں دیئے، مگر خود یہ سوال نہ کر سکے کہ سانحہ پشاور میں بھارت ہمارابھی تومرکزی ملزم ہے جس سے متعلق ہماری حکومت آپ کو شواہد بھی دے چکی ہے لہذا آپ نے بھارت کے خلاف کیا کِیا،اور اگر کچھ نہیں کیا تو کیوں کچھ نہیں کیا ؟ اور نہ ہی جب یہ ارکان واپس آکر میڈیا کوجب یہ بات بتانے لگے تب ہی کِسی پاکستانی میڈیا پرسن نے اِن سے یہ سوال کرنے کہ ہمت کی کہ آپ نے یہ سب(متذکرہ بالا سوالات ) اُن سے کیوں نہیں پوچھے ؟ کیونکہ ہم پختون ہیں،پنجابی ہیں ، سندھی ہیں، بلوچی ہیں ،شیعہ ہیں، سُنی ہیں ، بریلوی ہیں ،دیو بند ہیں ،اہلحدیث ہیں،راجپوت ہیں، پاولی ہیں ،جٹ ہیں ،آرائیں ہیں،کمہار ہیں، نائی ہیں ، موچی ہیں، سُنار ہیں ،لوہار ہیں ،دھرکھان ہیں،راٹھ ہیں،کمین ہیں، وغیرہ وغیرہ بہت کچھ ہیں
Pakistan Terrorist
اتنا کچھ ہیں کہ مکمل لکھنا یا بولنا ناممکن ہے ، اگرہم نہیں ہیں تو پاکستانی نہیں ، نہیں ہیں تو انسان نہیں ہیں ،اگر ہوتے تو ہم بھی پوچھتے ،کیونکہ انسان بڑے حساس ہوتے ہیںاُنہیں اپنوں کی بڑی پہچان ہوتی ہے ،وہ غیروں کے مظالم کبھی نہیں بھولتے وہ ملک کے اندر ہوں یا باہرایک قوم پہلے اور باقی سب کچھ بعد میں ہوتے ہیں ،لیکن ہمارے ہاںکوئی کِسی کا نہیں، ہم بٹے ہوئے ہیں ،ہم میں سے جس کا جو بیٹا ہے وہ اُسی ہی کا بیٹا ہے ،کوئی دوسرا اِسے باپ یا ما ں کی نظر سے دیکھتا بھی نہیں ،جس کی ماںہے اُسی کی ماں ہے کوئی اِسے ماں سمجھ کر سہارا دینا تو دور کی بات ماں کہہ کر بُلا تا بھی نہیں ،جوجِس کی بیٹی یا بہن ہے اُسی کی بیٹی یا بہن ہے باقی سب جس نظر و خیال سے دیکھتے ہیں وہ بھی آپ کے سامنے ہی ہے !اِسی طرح پشاور میں جن کے پھول شہید ہوئے اُنہیں کے ہوئے باقی سب بھول چکے ،
مگر اوباما کی سالگرہ ہم کبھی نہیں بھولے اور نہ ہی مودی کومبارک دینا بھولتے ہیںکیونکہ ہم کونسا پاکستانی یا پاکستانیوں کے نمائندے ہیں ہم توہندو سِکھ عیسائی،براہمن اورکراڑوں کے نمائندے ہیں ،اور جس سے جو رشتہ اِن کا ہے وہی ہمارا ہے ، (مطلب آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے )لہذا ہم باقی سب کچھ پہلے پاکستانی بعد میں ہیں پَس اسی لئے ہم اُن کے سامنے اِن کی بات نہیں کرتے،پَس اِسی لئے ہم صرف جوابات دیتے ہیں سوالات نہیں کرتے، اور جن کے سامنے ہم خود کو اُن کا نمائندہ سمجھ رہے ہوتے ہیں وہ ہمیں ایک یتیم مسکین بھیکاری کے سوا کچھ نہیں سمجھتے ،اور نہ ہی کوئی غیرت دلاتے ہیں،کیونکہ غیرت تو غیرت مندوں کو دلائی جاتی ہے اور ہمارے متعلق تووہ اچھی طرح جانتے ہیں،
اِسی لئے توانہوں نے اُس شخص (جنرل ہُوڈ)کوپاکستان کا سفیر مقرر کر بھیجا ہے جس نے گوانتا جیل یو ایس اے میں( نعوذباللہ)قر آن پاک کو یہ کہہ کر کہ( اِس فتنے والی کتاب کو دُنیا سے ختم کردو)ٹائیلٹ میں بہایا تھا ، وہ جانتے ہیں کہ اِن کے ہاں تو دو گھروں کا اتفاق نہیں دو قبیلوں کا کیسے ہو سکتا ،دو بھائیوں کا اتفاق نہیں دو فِرقوں میں کیسے ہو سکتا ہے ،یہ میں کِسی ایک کیلئے نہیں کہہ رہا بلکہ میرے سمیت ہم سب ہی ایسے ہیں،جو کہ ایک تلخ حقیقت ہے ،اور اِس تلخ حقیقت سے نکلے بغیر کبھی ایک قوم نہیں بن سکتے ہیں لہذا دُعا ہے کہ خدا ہمیں بھی موجودہ ذات پات کے تضاد سے نکال کر ایک قوم بنے اورپنجابی پٹھان کی بجائے صرف مسلمان بنے وکہلانے کی توفیق عطا فرمائے،(آمین)۔