تحریر : عماد ظفر اختلاف رائے کسی بھی نظریے , عقیدے یا خیال کیلئے لٹمس ٹیسٹ کا کام دیتا ہے. اختلاف رائے دراصل افکار کی وسعتوں کی مدد سے نظریات یا تھیوریز کو مختلف زاویوں سے پرکھتے ہوئے انہیں نئے پہلووں سے روشناس کرواتا ہے. اگر تو کوئی بھی نظریہ عقیدہ یا سوچ حقیقتا درست سچی اور خالص ہو تو اختلاف رائے اسے مزید جلا بخشنے کا کام دیتا ہے جبکہ خود ساختہ نظریات یا روایات اختلاف رائے کی تاب نہ لاتے ہوئے دلیل و منطق کی طاقت سے زمین بوس ہو جاتے ہیں. روس کی مثال اس ضمن میں سب کے سامنے ہے.ایک طرف جہاں کولڈ وار کے زمانے میں روس اندر سے ٹوٹ رہا تھا، بھاری بھرکم اسلحہ ضرورت سے زیادہ بڑی فوج اور اس پر خرچ ہونے والے وسائل نے روس کی معیثت کا پٹھا بٹھایا ہوا تھا تو دوسری جانب اظہار رائے پر مکمل قدغن تھی. جو بھی شخص روس کے اصل حالات کی جانب توجہ دلانے کی کوشش کرتا وہ کے جی بی کے ہاتھوں لاپتہ ہو جاتا اور پھر کچھ عرصے بعد اس کی لاش ورثا تک پہنچ جاتی تھی. اسـں قدغن نے روس کے اندر ایک خوف کی فضا طاری کر دی تھی عوام خوف کے عالم میں ایک گھٹن زدہ فضا میں سانس لیتے رہے اور پھر روس افغانستان پر حملہ کرنے کے بعد معاشی طور پر دیوالیہ ہو گیا اور عسکری محاذ پر بھی اسے شکست فاش ہوئی نتیجتا متحدہ روس کے ٹکڑے ہوئے اور عوام نے خوشی خوشی آزادی کی چاہ میں چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ کر رہنے کو ترجیح دے دی. نہ تو اسـوقت کوئی بھی جذبہ حب الوطنی انہیں ٹکڑوں میں بٹنے سے روک پایا اور نہ ہی کوئی طاقت ان کی آواز کو معاشی محاذ پر شکست کے بعد کسی جبر سے دبا سکی.
اسی طرح مشرقی پاکستان کا سانحہ بھی سیکھنے والوں کیلئے ایک عبرتناک سبق ہے. مـشرقی پاکستان میں بسنے والوں کو ان کے حقوق نہ دے کر رفتہ رفتہ ان کے دلوں میں نفرت کے بیج پروان چڑھائے گئے. ان کے دانشوروں اور رہمناؤں کو آہستہ آہستہ غدار اور سیکیورٹی رسک قرار دیا گیا اور پھر تنقید یا اختلاف کرتی آوازوں کو جبر سے دبانے کی کوشش کی گئی. یہاں تک کے سن ستر کے انتخابات کے بعد واضح اکثریت سے انتخابات جیتنے والی جماعت عوامی لیگ کو اقتدار دینے سے انکار کرتے ہوئے اس کے سربراہ شیخ مجیب کو غدار اور سیکیورٹی رسک قرار دیا گیا.مشرقی پاکستان کے ووٹرز اور شیخ مجیب کو ادھر ہم ادھر تم جیسے نعروں کا بھی سامنا کرنا پڑا. اور پھر شیخ مجیب نے بغاوت کرتے ہوئے ایک علحدہ وطن کے قیام کا مطالبہ کر دیا. شیخ مجیب اور اس کی جماعت کو کچلنے کیلئے عسکری طاقت استعمال کی گئی لیکن سقوط ڈھاکہ ہو کر رہا. مشرقی پاکستان کے عوام کے دلوں میں دبی نفرت جو احساس محرومی، اظہار رائے کو کچلنے اور حق نمائندگی کو تسلیم نہ کرنے سے پیدا ہوئی تھی اس نے پاکستان کو دو لخت کر دیا.ان دونوں واقعات سے ایک انتہائ سیدھا اور آسان سبق ملتا ہے اور وہ یہ ہے کہ خوف کے دم پر قائم ریاستیں ریت کے ڈھیر کی مانند ہوتی ہیں جنہیں حالات و واقعات کے سیلاب کا ایک معمولی سا ریلا بھی بہا کر لے جایا کرتا ہے.
ریاستیں اسی صورت قائم و دائم رہا کرتی ہیں جب وہاں بسنے والے خوف کے بجائے محبت اور اعتماد کی وجہ سے ریاست سے ایک رشتے میں بندھے ہوتے ہیں اور یہ رشتہ ماں بیٹے جیسا ہوتا ہے.ریاست ماں کے جیسی ہوتی ہے اور شہری بیٹوں کی مانند. لیکن اگر ریاست چوہدری کا کردار ادا کرنا شروع کر دے اور پرامن طور پر اختلاف رائے رکھنے والوں کو اپنے لیئے خطرہ تصور کرتے ہوئے ان کو کچلنا شروع کر دے تو پھر خوف کا یہ رشتہ معاشرے میں حبس کی فضا پیدا کر دیتا ہے اور تاریخ کا سبق یہی ہے کہ حبس زدہ معاشرے ایک نہ ایک دن خود حبس کا شکار ہو کر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں. بدقسمتی سے تاریخ سے سبق سیکھنا بہت کم انسانوں یا اقواموں کو نصیب ہوتا ہے. مینڈیٹ کو کچل کر اور اظہار رائے کو دبا کر مشرقی پاکستان دو لخت ہوا.اسی طرح جنوبی افریقہ میں سیاہ فاموں کو کچلا گیا اور آخرکار انہوں نے گوری اشرافیہ سے آزادی حاصل کر لی. نفرت اور جبر کسی بھی طور دلیل کا سامنا نہیں کرنے پاتے. اگر کسی کا نظریہ یا خیال غلط ہے اور اس کا پرچار پرامن طریقے سے کیا جاتا ہے تو پھر اسے بزور طاقت کچلنے کی ضرورت ہی نہیں ہوا کرتی کہ وہ اپنی موت آپ مر جاتا ہے لیکن اگر کسی کو کچلا جائے اور اس کے اظہار رائے ہر پابندی لگائی جائے یا اس کے مینڈیٹ کو مختلف طریقوں سے رد کیا جائے تو پھر اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جبر کرنے والا دراصل خوفزدہ ہے اور طاقت کے دم پر اس نظریے یا سوچ کو کچلنا چاہتا ہے. طوفان کبھی بھی بتا کر نہیں آیا کرتے لیکن طوفانوں کے آنے سے پہلے ایک گہرا سکوت اور خاموشی ضرور ہوا کرتی ہے.
معاشرے میں اس خاموشی کو نہ پیدا ہونے دینا ریاست اور ریاستی ستونوں کی ذمہ داری ہوا کرتی ہے. توہین یا حب الوطنی کے فتوے لگا کر صدیوں پہلے مخالفین کو کچلا جاتا تھا لیکن اب دنیا تبدیل ہو چکی ہے. خبر اور حقائق سیکنڈز میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں پہنچ جاتے ہیں ایسے میں یہ گمان کرنا کہ صدیوں پرانے فارمولے کو اپنا کر اس بدلتی دنیا میں بھی شعوری طور پر پچھلی صدی میں عوام کو بسایا جا سکے گا یہ ایک خوش فہمی تو ہو سکتی ہے لیکن حقیقت نہیں. گھر ہوں یا معاشرے ان میں شور شرابے سے ہی رونق ہوا کرتی ہے سکوت قبرستانوں کی پہچان کہلاتا ہے. اختلاف کا حق اظہار رائے کا حق اورعوام کے دیئے گئے مینڈیٹ کا احترام معاشروں کی بقا کا ضامن اور ان کے پھلنے پھولنے کا باعث ہوا کرتا ہے.روس نے یہ سبق ٹوٹنے کے بعد سیکھا عرب دنیا کو اس امر کی نشاندہی عراق مصر شام کو آگ وخون میں نہلانے کے بعد ہوا. امید غالب ہے ہم سقوط ڈھاکہ کے تلخ تجربے کو مد نظر رکھتے ہوئے اب اس حقیقت کا ادراک کر لیں گے اور جانتے بوجھتے خود کشی کی کوشش نہیں کریں گے.