خودکشی

Suicide

Suicide

خودکشی اسلام میں حرام ہے، اس وقت معاشرہ میں خودکشی کا رجحان انتہائی حد تک بڑھ چکاہے،اس کی اہم وجوہات میں بیروزگاری، امتحان میں ناکامی، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کا فقدان، گھریلو حالات، نااتفاقی، معاشی حالات ہیں، خودکشی کے معنی ہیں خود کو ہلاک کرنا، خودکشی گناہ کبیرہ حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے، پارہ 5،سورہ النساہ،آیت نمبر 29,30 ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے، اے ایمان والو:آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق ناکھائو، مگر یہ کہ کوئی سودا تمھاری باہمی رضامندی کا ہوا،اور اپنی جانیں قتل نہ کرئو،بے شک اللہ عزوجل تم پر مہربان ہے اور ظلم اور زیادتی سے ایسا کرئے گا تو عنقریب ہم اسسے آگ میں داخل کریںگے اور یہ اللہ عزوجل کو آسان ہے۔

انسان اپنی زندگی کا آپ مالک نہیں ہے کیونکہ وہ زندگی کے ایک خلیہ کا بھی مالک نہیں ہے ،زندگی تو اللہ رب العزت کی امانت ہے انسان اللہ کی مدد سے نیکی کی راہ میں اپنی جان قربان تو کر سکتا ہے لیکن اس کو ضائع نہیں کر سکتا اور جو شخص یہ بددیانتی کرتا ہے ،وہ اللہ عزوجل کی نظر میں بڑاباغی اور مجرم ہے، انسان سے سرزرد ہونے والے جرائم میں سب سے سنگین جرم خودکشی ہے ،خودکشی کرنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری جان چھوٹ جائے گی، حالانکہ اس سے جان چھوٹنے کے بجائے ناراضی اللہ رب العزت عزوجل کی صورت میںنہایت بری طرح پھنس جاتا ہے ،حدیث پاک میں ہے کہ:جو شخص جس چیز کے ساتھ خودکشی کرئیگاوہ جہنم کی آگ میںاسی چیز کے ساتھ عذاب دیا جائے گا۔

Allah

Allah

اللہ تبارک و تعالیٰ مسلمانوں کو امتحانات میں مبتلا فرما کر ان کے گناہوں کو مٹاتا اور درجات کوبڑھاتا ہے، جو مصائب اور آلام پر صبر کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے ،وہ اللہ عزوجل کی رحمتوں کے سائے میں آجاتا ہے ،چناچہ پارہ دوسرا،سورہ البقرہ،آیت نمبر 155تا 157میںارشادربانی ہے،اور ضرور ہم تمہیں آزمائیں گے کچھ ڈراور بھوک سے اور کچھ مالوںاور جانوںاور پھلوں کی کمی سے اور خوشخبری سنا ان صبر والوں کو کہ جب ان پر کوئی مصیبت پڑے تو کہیں:ہم اللہ عزوجل کے مال ہیںاور ہم کو اسی کی طرف پھرنا، یہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب عزوجل کے درود ہیں اور رحمت اور یہی لوگ راہ پر ہیں۔آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مصیبتیں دے کر آزماتا ہے تو جس نے ان میں بے صبری کا مظاہرہ کیا، واویلہ مچایا،ناشکری کے کلمات زبان سے ادا کئے یا بیزار ہو کر معاذ اللہ خودکشی کی راہ لی، وہ امتحان میں بری طرح ناکام ہو کر پہلے سے کروڑ ہا کروڑگناہ زائد مصیبتوں میں گرفتار ہو گیا ،بے صبری کرنے سے مصیبت تو جانے سے رہی ،الٹا، صبر کے زریعہ ہاتھ آنے والا عظیم الشان ثواب ضائع ہو جاتا ہے،جو کہ بذات خود ایک بہت بڑی مصیبت ہے ،ہمیں بھی چاہیے کہ کیسی بھی مصیبت آجائے اس مصیبت کے بڑے ہونے پر نظر نہ رکھیں بلکہ اس پر ملنے والے ثواب پر غور کریں،انشاء اللہ عزوجل اس طرح صبر کرنا آسان ہو جائے گا۔

اگر ہم صبر کرنے میں کامیاب ہو گئے تو بروز قیامت اس کے ثواب کو دیکھ کر لوگ رشک کریں گے، چناچہ اللہ عزوجل کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے، جب بروز قیامت اہل بلا(یعنی دنیا میں جنہوں نے بیماریاں،بیروزگاریاں،اور پریشانیاں اٹھائیںان (کو ثواب عطا کیا جائے گا تو عافیت والے(یعنی مالدار،صحت مند ،اور دنیا میں سکھ پانے والے لوگ )تمنا کریں گے کہ کاش :دنیا میں ہماری کھالیں قینچیوں سے کاٹی جاتیں،(اور آج قیامت میں ہمیں بھی یہ عظیم الشان ثواب مل جاتا ،(سنن الترمذی ،ج4،رقم الحدیث2410۔آج مسلمانوں کی ایک تعداد شریعت کے علم سے دوری کی بناہ پر بے صبری ،ایمان کی کمزوری ،اورخوف خدا عزوجل نہ ہونے کی وجہ سے اس خطرناک مرض کا شکار ہوتی جارہی ہے۔

غور کرنے پر اس کا بنیادی سبب وہ بڑی ہوئی خواہشات ہیں جن کی تکمیل نہ ہونے پر انسان کو افسردگی اور ڈیپریشن کا مرض لاحق ہو جاتا ہے جو بالاآخر خودکشی پر ختم ہوتا ہے۔

Sarfaraz Ahmed

Sarfaraz Ahmed

تحریر : سرفراز انصاری