خودکشی حصہ اول

Suicide

Suicide

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

سر میں خودکشی کر نے جا رہا ہوں ‘میں نے اپنی زندگی ختم کر نے کے لیے زہر اپنی رگوں میں اتار لیا ہے آپ کے آنے سے پہلے میں موت کی وادی میں اُتر جائوں گا ‘ زندگی کا ہر سیکنڈ میرے لیے جہنم سے بد تر ہو گیا ہے ‘ہر سانس کو ہ ہما لیہ سے بھی وزنی ہے میں اب سانس نہیں لے سکتا’ دوزخ سے زیادہ تکلیف دہ زندگی سے بہتر ہے انسان موت کو گلے لگا لے ‘ لہٰذا میں نے موت کو گلے لگا لیا ہے سر میں مر رہا ہوں میں موت کی دہلیز پر پڑا ہوں ‘ سر میری معافی کے لیے دعا کیجیے گا مجھے پتہ ہے میں حرام موت مر رہا ہوں ‘ اسلام میں خود کشی حرام ہے لیکن اپنی زندگی جو موت سے بھی خوفناک ہو جائے اُس زندگی سے بہتر ہے انسان موت کو گلے سے لگا لے ‘ میں نے موت کو گلے سے لگا لیاہے ‘ سر میرے گھر والوں کو سمجھائیے گا میں گناہ گار برا انسان نہیں تھا میں اُن سے بہت پیار کر تا تھا سر میں بُرا انسان نہیں تھا سر آپ نے میرے گھر والوں کو سمجھانا ہے سر میری آخری زندگی کے لیے خدا سے معافی مانگنی ہے۔

سر خدا حافظ میں مرنے جا رہا ہوں ایسے بے شمار پیغامات سے میرے مو بائل فون کی سکرین بھر ی پڑی تھی ‘ نماز فجر کے بعد جیسے ہی میں نے رات کا آف موبائل کھولاتو ایک جاننے والے سرکاری آفیسر کے پیغامات سے میری موبائل سکرین بھر گئی تھی میں رات کے خمار’ نماز ‘ ذکر کی مستی سے نکلا نہیں تھا کہ فون آن کرتے ہی ایسے درد ناک پیغامات سے لرز گیا میں نے فوری طور پر متعلقہ نمبر پر کال ملائی تو موبائل آف تھا صاحب بہادر مجھے میسج کرنے کے بعد فون آف کر گئے تھے میں نے بار بار کال ملانے کی کو شش کی لیکن اُن کا نمبر آف ہی نظر آرہا تھا اب میں نے فوری طور پر صاحب کی بیگم صاحبہ کا نمبر ملایا تو انہوں نے آہوں سسکیوں چیخوں کے درمیان فون اُٹھایا اور بولیں سر انہوں نے زہر پی کر موت کو گلے لگانے کی کو شش کی ہے اِس وقت موت و حیات کی کشمکش میں ICUمیںپڑے ہیں سر آپ دعا کریں ان کی سانسیں بحال رہیں ان کے دم سے ہی تو ہم ہیں وہ میرے سرکا آسمان ہیں وہ نہ رہے تو میرا اِس درندوں بھری دنیا میں کیسے رہوں گی ‘ سر خدا کے لیے اُن کی زندگی کی دعا کریں ہم اس وقت فلاں ہسپتال میںہیں آپ اُن کی زندگی کی دعا کریں اُن کی حالت بہت زیادہ خطرے میں ہے ڈاکٹر بہت مایوس دکھائی دے رہے ہیں۔

میرااور بچوں کا رو رو کر برا حال ہے میں اپنی غلطیوں کو تاہیوں لڑائی جھگڑوں سے تو بہ کر تی ہوں میںکبھی لڑائی جھگڑا نہیں کروں گی اُ ن کی ہر بات مانوں گی مجھے اپنی تمام غلطیوں کا آج احساس ہوا ہے میری زندگی خوشیوں کا سارا دارومدار تو اُن کی زندگی سے ہے اگر وہ ہی نہ رہے تو یہ زندگی کے سارے رنگ پھیکے پڑ جائیں گے ‘ میری زندگی کا اجالا خوشبو وہی ہیں میری تو بہ جو کبھی انہیں تنگ کرو ں ‘ وہ بیچاری بار بار اپنی غلطیوں کو تاہیوں کی معافی مانگ رہی تھی کہ شاید خاوند صاحب اُس کے رویے سے دلبر داشتہ ہو کر موت کی طرف گئے جبکہ میں حقیقت جانتا تھا کہ صاحب کی خود کشی میں بیوی بچوں کا بلکل بھی قصور نہیں تھا وہ بیچارہ تو کسی اور ہی مصیبت میں گرفتار تھا وہ کسی کمزور لمحے کا شکار ہو کر جان کنی کے عذاب میں مبتلاتھا مجھے چند دن پہلے وہ زندگی میںپہلی بار میرے سامنے آیا اُجاڑ ویران شکستہ حالت میں چہرے آنکھوں میں موت کی زردی زندگی کی رمق اُسے کے چہرے پر نہیں تھا ایک ہارا ہوا شکست خوردہ انسان ‘خوف کی امر بیل اُس کو چاٹتی جارہی تھی اُس کی رگوں میں خون کی جگہ بد نامی خوف دوڑ رہا تھا وہ پچھلے کئی دنوں سے بے بسی خوف کے پل صراط پر ننگے پائوں چل رہا تھا اُس سے ایک ایسی غلطی ہو گئی تھی کہ وقت اب اُس کے ہاتھوں سے ریت کے ذرات کی طرح نکل گیا تھا وہ ناقابل اصلاح غلطی کر چکا تھا اُس کی ساری زندگی ایمانداری شرافت با کرداری میں گزری تھی لیکن عمر کے آخری حصے میں ایک کمزور لمحہ اُس کے لیے سونامی ثابت ہوا تھا اُس کمزور گھڑی نے اُس کی ساری زندگی کی پارسائی نیکی اچھائی کردار کو خطرے میں ڈال دیا تھا وہ بند گلی میں کھڑا ہو گیا تھا چاروں طرف بد نامی کا سیاہ اندھیرا چاروں طرف ناامیدی کی دلدل میں وہ ہر گزرے لمحے کے ساتھ دھنسا جا رہا تھا جب اُسے امید کی کو ئی کرن نظر نہ آئی تو اُس نے موت کو گلے لگانے کا فیصلہ کیا۔

زندگی کا ہر سانس اُس کے لیے کے ٹو پہاڑ بن گیا تھا جو آپ اُس سے لیانہیں جارہا تھا زندگی کے اِس شدید دلخراش لمحوں میں اُس نے سہارے کے لیے ادھر اُدھر ہاتھ مارے اِسی سلسلے میں وہ میرے پاس بھی آیا ‘ صبح سے آکر ایک کو نے میں کبھی کھڑا کبھی بیٹھا تھا جب بہت سارے گھنٹے گزر گئے تو میں نے انتہائی خستہ حال پریشان اُجڑے شخص کو اشارہ کر کے اپنی طرف بلایا اور پوچھا آپ صبح سے آئے ہو ئے ہیں لیکن میری طرف آنے کی بجائے اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا جب وہ میر ے پاس آیا تو میں نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے سوالیہ لہجے میں پوچھا جناب آپ مجھ سے ملنے آئے ہیں یا کسی اور سے تو اُس نے خشک ہونٹوںپر زبان پھیرنے کی ناکام کو شش کر تے ہو ئے دھیمے کمزور لہجے میں کہا بس سر میںآپ سے ہی ملنے آیا ہوں ‘ میں انتظار کر رہا ہوں جب آپ باقی ملاقاتیوں سے مل کر فارغ ہو جائیں تو آپ سے تنہائی میں آرام سے تفصیل سے مل سکوں لیکن صبح سے اب تک آپ فارغ نہیں ہو ئے اِس لیے آپ کے قریب آنے کی ہمت نہیں پڑی۔

میں نے اُسے سر سے پائوں تک دیکھا تقریبا ساٹھ سال کے قریب شخص سر سے پائوں تک شکستہ حال تھا پتہ نہیں کتنے دنوں سے کپڑے نہیں بدلے تھے نہ ہی نہایا تھا چہرے کی زردی اور رنگ بتا رہا تھا کہ کتنے دنوں سے پیٹ بھر کر کھانا بھی نہیں کھایا ‘ کو ئی غم پریشانی خوف تھا جس نے اُسے اپنے آہنی شکنجے میں جکڑ رکھاتھا خوف اُس کے باطن تک رسائی کر چکا تھا ‘ زندگی سے کوسوں دور وہ ایک زندہ لاش کی طرح میرے سامنے کھڑا تھا وہ کسی بہت بڑے حادثے دکھ یا المیے سے گزر کر میرے پاس آیا تھا اُسی کے بولنے کا انداز اور لفظوں کا چنائو بتا رہا تھا کہ وہ پڑھا لکھا شخص ہے ‘ میں اُس کی حالت زار دیکھ کر دکھی ہو گیا اُسے لے کر بینچ پر آکر بیٹھ گیا پانی منگوا کر پانی کر ٹھنڈا گلاس اُسے پیش کیا اور حوصلہ افزائی کا فقرہ بولا ساتھ ہی تھپکی دی آپ پریشان نہ ہوں آپ جس کی مشکل یا مصیبت میں ہیں اللہ تعالی جو ستر مائوں سے زیادہ شفیق ہے وہ ضرور آپ کی مدد کرے گا۔

آپ بے فکرہو جائیں آپ کی پریشانی حل ہو جائے گی حسرت مایوسی میں ڈوبتا شخص بے یقینی سے میری طرف دیکھنے لگا اٹھا کر گلاس خشک لبوں سے لگایا اور پی گیا ساتھ ہی بولا واقعی میرا مسئلہ حل ہو جائیگا میں نے تبسم آمیز لہجے میں کہا انشاء اللہ ضرور اور ساتھ ہی ایک اور گلاس بھر کر اُس کے ہاتھ میں دیا جو اُس نے فوری لبوں سے لگا کر خالی کر دیا وہ پتہ نہیں غم مایوسی دکھ پریشانی کے کتنے جھلستے تپتے صحرائوں سے گزر کر میرے پاس آیا تھا اُس کا جسم غم کی بد نامی کی آنچ سے سلگ رہا تھا اِس لیے فوری دوسرا گلاس بھی پی گیا اب وہ خوف زدہ نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا کہ کوئی اُس کا جاننے والا تو پاس نہیں دوچار بندے جو چند گز کے فاصلے پر کھڑے تھے میں نے انہیں اشارہ کیا کہ وہ دور چلیں جائیں تاکہ وہ اطمینان سے بات کر سکے چاروں طرف دیکھ کر اطمینان کر کے وہ میری طرف جھکا اور سرگوشی کے دھیمے لہجے میںبولا جناب میں زندگی کی سب سے بڑی غلطی کر بیٹھا ہوں اگر آپ نے میر مسئلہ حل نہ کیا تو میں اپنی غلطی کے خمیازے کے طور پر اپنی جان دے دوں گا میرے پاس موت کو گلے لگا نے کے علاوہ کو ئی چارہ نہیں ہو گا سر مجھے بچالیں میں ابھی زندہ رہنا چاہتا ہوں مجھے اپنے بیوی بچوں سے بہت زیادہ پیار سے میں بد نامی کی زندگی نہیں گزار سکتا ‘ سر خدا کے لیے میری مدد کریں مجھے اِس جہنم سے نکالیں پھر وہ زارو قطار پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ (جاری ہے )

Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti

Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti

تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل: [email protected]
فون: 03004352956
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org