تحریر: ابنِ نیاز غزہ احد میں ایک شخص بہت شاندار انداز سے تلوار کے جوہر دکھا رہا تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے رسول پاک ۖ سے عرض کیا کہ فلاں شخص کیا لڑ رہا ہے۔ چند لمحے کے توقف کے بعد آپ ۖ نے فرمایا کہ وہ شخص دوزخی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حیران ہوئے۔ لڑائی ختم ہوئی تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس شخص کو شہیدوں میں تلاش کیا وہ شخص وہاں موجود نہیں تھا۔ پھر اس شخص کی تلاش زخمیوں میں شروع کی۔ تو دیکھا کہ وہ شخص زخمیوں میں فوت شدہ پڑا ہے۔ جب اس کے جسم پر غور کیا تو دیکھا کہ اس نے اپنی کلائی کی رگ کاٹ لی تھی۔ جس سے خون بہنے کی وجہ سے اس کی جان چلی گئی۔ اب ہوا کیا تھا کہ وہ شخص لڑائی کے دوران زخمی ہو گیا تھا لیکن پھر زخموں کی تکلیف برداشت نہ کر سکا۔صبر نہ کرتے ہوئے اس نے اپنی کلائی کی رگ کاٹ لی اور یوں وہ جنت کا راستہ بھول کر جہنم کے دروازے کی راہ پر لگ گیا۔رسول پاک ۖ کا فرمان ہمیشہ کی طرح سچ ثابت ہوا۔
شب معراج میں رسول پاک ۖ نے دیکھا کہ کچھ لوگ پہاڑ سے چھلانگ مار رہے ہیں اور بار بار مار رہے ہیں۔ مرتے ہیں، پھر زندہ ہو جاتے ہیں ۔ پھر پہاڑ پر چڑھ کر دوبارہ چھلانگ مارتے ہیں۔ کچھ اپنے آپ کو دوسرے طریقوں سے مار رہے ہیں۔ اور بار بار یہ عمل دہرایا جا رہا ہے۔ رسول پاک ۖ نے اپنے ہم رکاب حضرت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے دنیا میں خود کشی کی اور اب یہ ہمیشہ اسی طرح کرتے رہیں گے۔ یعنی اپنے آپ کو اسی طریقہ سے ماریں گے اور مر کر دوبارہ زندہ ہوں گے، اور پھر مار یں گے۔ اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔
Suicide
خودکشی ہے کیا؟ اپنی جان لینا۔ گویا اللہ کی دی ہوئی جان میں خیانت کی اور اس شدید قسم کی خیانت کہ اپنی جان ہی لے لی۔ کیا خود کشی کرنے والے کو یہ حق پہنچتا تھا کہ وہ اپنی جان لیتا۔ نہ تو وہ خود پیدا ہوا، نہ خود پلا بڑھا، نہ ہی اس نے اپنی مرضی سے رزق کمایا۔ نہ ہی وہ اپنی مرضی سے بیمار ہوا یا صحت یاب ہوا۔ دنیا کی کوئی نعمت اس نے اپنی مرضی سے حاصل نہیں کی، تو پھر وہ جان لینے میں اپنی مرضی کیسے کر سکتا تھا۔ بے شک یہ جان تب دیتا جب دوسرے لیتے۔ لیکن اس وقت مزا آتا جب یہ جان دینا اس شعر کے مصداق ہوتا۔
جان دی دی ہوئی اس کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ وا۔
اللہ کی راہ میں ، اللہ کے رسول ۖ کے عشق میں ، اللہ کے دین کی خاطر اگر جان دینی پڑے، لیکن دوسروں کے ہاتھوں دینی پڑے تو بات بنتی ہے۔ ورنہ قیامت کے دن حساب کتاب کے بعد تم جتنے ولی ٹھہرے دنیا میں۔۔ تم جتنے انسانوں میں ہر دل عزیز تھے، متاعِ جاں تھے، لیکن اگر اپنے ہاتھوں سے خود کو اڑا دیا تو پھر کوئی فائدہ نہیں۔ ساری زندگی کی نیکیاں رائیگاں۔ نہ جنت کے مزے نہ پل صراط سے مانند برق گزرنا۔ جو گزرا بھی تو ایسے کہ پل صراط سے نیچے نظر پڑی اور پھر اس نظر کے پیچھے بندہ بھی نیچے۔ لیکن بندہ خوکشی کیوں کرتا ہے؟ کیا اس کا ناطہ دین سے ٹوٹ جاتا ہے۔ کیا اس نے اللہ کے حکم کو نہیں مانا ہوتا۔ کیا اس کا دکھ، اس کا غم، اس کی تکلیف اللہ کی رحمت سے زیادہ ہوتی ہے۔ ہر گز نہیں۔ جب اللہ پاک نے قرآن میں صریح الفاظ میں فرما دیا ہے کہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہر گز نہ ہو، تو پھر بندہ کون ہوتا ہے اپنی پریشانیوں کو بہت زیادہ سمجھنے والا۔
اگر آپ طالب علم ہیں ، آپ کو امتحانات کی پریشانی ہے ، فیل ہونے کا خطرہ ہے۔ اور فیل ہونے کی وجہ سے باپ کے غصے کا ڈر ہے۔ تو کیوں ہے؟ کیا آپ نالائق طالب علم ہیں۔ نہیں۔ آپ میں ذہانت ہے، لگن ہے، محنت ہے۔ بس اتنی سی بات ہے۔ جب آپ محنت کریں، دل لگا کر کریں اور سبق میں من تن دماغ لگا کر کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ نہ صرف آپ پاس ہوں بلکہ آپ کے نمبر بھی اچھے ہوں۔ ایک لطیفہ یاد آگیا ۔ ریزلٹ آنا تھا۔ ایک دوست دوسرے کہنے لگا کہ تم ریزلٹ سن کر گھر آنا۔ اگر والد پاس ہوں تو ایک پیپر میں فیل کا کہنا کہ مسلمان کی طرف سے سلام۔ دو میں فیل ہوا تو کہنا مسلمانوں کی طرف سے سلام۔ دوست ریزلٹ دیکھ کر آیا اور بولا پوری امت مسلمہ کی طرف سے سلام قبول ہو۔ یہ تو چلتے چلتے ایک بات ہوگئی۔ اگر تو باپ کا ڈر ہے تو بھی قصور آپ کا نہیں۔ آپ کے والد کا ہے۔ انہیں چاہیے کہ دین کا مطالعہ کریں۔ ہمارے دین میں اللہ کے احکامات کیا ہیں، اللہ کے رسول ۖ کی تعلیمات کیا ہیں؟ کیا ہم ان پر عمل کر رہے ہیں؟ کیا رسول پاک ۖ نے جو فرمایا ہے کہ اپنی اولاد کے ساتھ بہترین سلوک کرو، ان کی بہترین تربیت کرو، تو کیا آ پ نے بہترین تربیت کی ہے؟ اگر آپ کی تربیت میں کمی نہ ہوتی، ان کو محنت کا فارمولا سکھایا ہوتا تو ہر گز اس طالب علم میں گھبراہٹ نہ ہوتی۔
Business-Loss
آپ کاروباری ہیں۔ آپ کو کاروبار میں نقصان ہو رہا ہے اور اب نوعیت اس بات تک پہنچ گئی ہے کہ دنیا سے جی اچاٹ گیا ہے۔ اپنی جان لینے کو جی چاہتا ہے۔ تو ایسا ہر گز نہ سوچیے۔ آپ یہ سوچیے کہ کاروبار کرنے کے دوران آپ نے کسی کا حق تو نہیں مارا۔ چاہے وہ ایک روپے کا ہو یا ایک لاکھ روپے کا۔ اس بات پر غور ضرور کریں۔ کاروبار کے دوران کہیں بے ایمانی سے تو کام نہیں لیتے رہے۔ غور کریں اور خوب غور کریں۔ اور اس کا علاج تو بہت آسان ہے۔ پہلے رب سے توبہ۔ دل سے توبہ۔ سجدے میں سر رکھ کر گڑ گڑا کر توبہ۔ اور اللہ تو ہے ہی وہ ذات کہ جس کا کہنا ہے تم ستر مرتبہ توبہ کرو، میں ستر مرتبہ تمھاری توبہ قبول کروں گا۔ جب آپ کو توبہ کرنے کی توفیق مل جائے، سجدے میں سر رکھنا نصیب ہو جائے تو پھر اس شخص کو تلاش کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں جس کی حق تلافی کی تھی۔ جس کے ساتھ زیادتی کی تھی۔ اگر بفرضِ محال وہ شخص نہیں ملتا تو پھر وہ حق جو اس کا تھا، بنا ثواب کی نیت کیے یا یہ کہ اس کا ثواب اس شخص کو پہنچے اللہ کی راہ میں عطیہ کر دیں۔ میں گارنٹی سے کہتا ہوں کہ اگر دنوں میں آپ کے دن نہ پھرے تو نام تبدیل کر دیجیے گا۔اور یہ گارنٹی میں اپنے آپ سے نہیں دے رہا ہوں۔ اپنے اللہ کے احکامات اور اسکے رسول ۖ کی تعلیمات کو سامنے رکھتے ہوئے کہہ رہا ہوں۔
آپ ملازم پیشہ ہیں۔ آپ کو آفس میں تنگ کیا جا رہا ہے۔ مختلف حیلے بہانوں سے آپ کی دفتر کی زندگی اجیرن کی جا رہی ہے۔دفتر والے رشوت لیتے ہیں اور آپ کو بھی مجبور کر رہے ہیں۔ اگر آپ نہیں لیتے تو وہ آپ کو آپ کی مرضی سے کام نہیں کرنے دیتے۔ ارد گرد کے دیگر افراد آپ پر آوازیں کستے ہیں۔ یہاں تک کہ اب آپ کا دل کرتا ہے کہ ان کو مار کر خود بھی مر جائوں۔ تو جناب عالی! نہ آپ کو فائدہ، نہ ان کو نقصان۔ ہو سکتا ہے، آپ کے ان کو مارنے کی وجہ سے ان کی شاید نیکی کاپی میں کسی نیکی کا اضافہ ہو جائے۔ البتہ آپ یہ ضرور کر سکتے ہیں کہ نظر انداز کرنے کا ہنر سیکھ لیں۔کوئی آپ سے کچھ کہے، کوئی آپ کے بارے میں دوسروں سے کچھ بھی غیبت کرے۔ آپ پہلے تو سنیں ہی نہ۔ لیکن اگر غلطی سے کان میں کوئی بات پڑ بھی گئی ہے تو یوں سمجھیں کہ آپ کے دونوں کانوں کے درمیان جگہ خالی ہے۔ ایک کان سے سنا، دماغ ہے ہی نہیں، تو دوسرے کان سے بات باہر نکال دی۔ آپ نے حق کا، سچائی کا جو راستہ اپنایا ہے، اس کو اپنائے رکھیں۔ جب اللہ کے احکامات کے مطابق حق پر چلنے والا ہمیشہ سرخرور رہتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ آپ کو سرفرازی نہ نصیب ہو۔ اس میں ایک چھوٹی سی شرط ہے کہ اللہ کے احکامات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنا کام کریں۔ساتھ میں اللہ سے دعا کریں کہ وہ آپ کو دین و دنیا میں سرخرو فرمائے۔ یقین مانئے کابیابی آپ کے قدموں میں ہو گی۔ آزمائش شرط ہے۔