تحریر : مجید احمد جائی زندگی بڑی عزیز شئے ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ عظیم نعمت بھی۔ زندگی ہمیشہ زندہ نہیں رہتی۔ اس کو ایک نہ ایک ضرور فنا ہونا ہوتا ہے۔زندگی اُن وجودوں میں رہ کر فخر محسوس کرتی ہے اور خوش ہوتی ہے جو اچھے کام کرتے ہیں۔ دوسروں کے لئے خوشیوں کا سبب بنتے ہیں۔ زندگی میں ایسے کام کر جاتے ہیں جو رہتی دُنیا تک یاد رہتے ہیں۔لیکن دُنیا میں ایسے بھی وجود ہوتے ہیں جو زندگی کو بوجھ سمجھتے ہیں اور اُس سے اُکتائے رہتے ہیں۔ زندگی سے نہ صرف نفرت کرتے ہیں بلکہ شکوے شکایات کے انبار لگا دیتے ہیں۔ اس سے مایوس ہوتے ہیں۔ مایوسی اور نااُمیدی گناہ ہے۔ گناہ شیطانی عمل ہے ۔جہاں شیطان کا عمل دخل ہو جائے وہاں زندگی مایوسی ،اُداسی کا شکار ہو جاتی ہے۔
قرآن مجید میں حضرت ِانسان کو مخاطب کرتے ہوئے بار ہا کہا گیا ہے ”شیطان تمھارا کُھلا دُشمن ہے ۔”ہم یہ آیات پڑھتے تو ضرور ہیں لیکن غور وفکر نہیں کرتے ۔ شیطان نہ صرف حضرت ِانسان بلکہ حیوانوں کو بھی ورغلا تا ہے ۔اپنے جال میں پھنساتا ہے اور ان کی زندگی تباہ و برباد کرکے ہنستا ہے۔اِنسان کو ذلیل و خوار کرکے شیطان جشن مناتا ہے ۔ایسی زندگی دُنیا میں مایوسی ،نااُمیدی میں گِری رہتی ہے اور آخرت میں بھی شرمندہ ہوتی ہے۔
شرمندگی گناہوں سے ۔۔نفرت سے ۔۔۔بے حیائی سے ہو تو سونے پہ سہاگہ لیکن اگر شرمندگی ،آوارگی بن جائے اور اپنے پَر پُرزے نکال لے توحسد،کینہ،غرور،تکبر جیسی بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔زندگی جب دوسروں کو پست پردہ ڈال کر خود کو سوچنے لگے تو خود غرضی کی چادر تن جاتی ہے ۔تب زندگی دوسروں کو اگنور کرتی جاتی ہے اور اپنے مفاد کے لئے جتن کرنے لگتی ہے۔
جس طرح ہر شئے میں خوبیاں بھی ہوتی ہیں اور خامیاں بھی اورجب خوبیوں پر خامیاں عنود کر جائیں تو زندگی ایسی ایسی حرکات کرنے لگتی جس سے زمانہ تو شرمندہ ہوتا ہی ہے ،لیکن خود زندگی بھی پانی پانی ہو جاتی ہے ۔خوبیاں رب تعالیٰ کی طرف سے عظیم تحفہ ہوتی ہیں اور خامیاں شیطان کی بانہوں میں جانے کے بعد پیدا ہوتی ہیں۔شیطان بھلا زندگی کا بھلا کب چاہتا ہے ۔اِنسان کا دُشمن شیطان ہی ہے جس کو اِنسان دوست سمجھ لیتا ہے اور اُس کے پہلو میں جا بیٹھا ہے ۔یہاں شیطان رشتے داروں میں دُوریاں ،بہن ،بھائی ،والدین میں نفرت کرواتا ہے وہاں لڑائی جھگڑے کرواتا ہے ۔ایک دوسرے کے خلاف محاذ کھول دیتا ہے ۔نیکیوں سے دُور اور بُرائیوں کی محفلیں جما دیتا ہے ۔زندگی کی آنکھوں پر خمار سا چھا جاتا ہے اور وہ اس دلدل میں ڈوبتی چلی جاتی ہے۔خواہشات کا سمندر من میں بسا لیتی ہے اور جب خواہشا ت حد سے تجاوز کر جائیں اور اُن کا حصول ناممکن ہو جائے تو مایوسی ،نااُمید ی عنود کر آتی اور زندگی خود کشی کرنے پر تُل جاتی ہے ۔خود کو ختم کر لیتی ہے۔
Suicide
خودکشی حرام فعل ہے اور شیطانی عمل ہے ۔ظاہر ہے شیطان کا ہر کام گناہ ہے ۔خود کشی کرنے والا رب تعالیٰ سے جھگڑاکرتا ہے اور شیطان کو تھپکیاں دیتا ہے۔اُس کی خوشیوں میں اضافہ کرتا ہے ۔شیطان اپنے اس فعل سے خوش ہو کر جشن مناتا ہے ۔دین اسلام خود کشی کو نہ صرف حرام قرار دیا ہے بلکہ جہنم کے عذاب سے ڈراتا ہے ۔زندگی جیسی پیاری اور عظیم نعمت سے نفرت کرنا اور ختم کرنا گناہ ہی تو ہے ۔خود کشی کرنے کی کئی وجوہات سامنے آتی ہیں ۔غربت سے تنگ ،بھوک افلاس کی چکی میں پستی زندگیاں جلدی مایوس ہو جاتیں ہیں اور اپنا خاتمہ کر لیتی ہیں ۔ایسی زندگی کا رب تعالیٰ کی ذات سے یقین نہیں رہتا اور شیطان یہی تو چاہتا ہے ۔خود کشی کرنے والی زندگی ،خود سے نجات حاصل کر لیتی ہے لیکن خود کوجہنم کا ایندھن بنا لیتی ہے ۔دُنیا اور آخرت میںبھی عذاب خر ید لیتی ہے۔
خود کشی کرنے والی زندگی حالات سے دل برداشتہ ہو جاتی ہے ۔جب دِل میں رب رحمان کی جگہ شیطان گھر کر جائے تب خود کشی جیسے افعال ظہور پذیر ہوتے ہیں ۔خود کشی میاں بیوی کی لڑائی ،رشتے داروں کے درمیان جھگڑے،جائیداد کے تنازع میں دل برداشتہ ہو کر ظہور پذیر ہوتی ہے ۔گزشتہ دِنوں خود کشی کی ایک نئی شکل بھی سامنے آئی ہے ۔اسلام آباد جیسے جدید شہر میں ایک طالب علم نے اسکول میں خود کشی کرکے عجیب وانہونی صورت حال پید اکر دی ہے۔استاد اور شاگرد کا مقدس رشتہ ہے ۔استاد روحانی باپ یا ماں ہوتے ہیں ۔۔کیا ماں یا باپ سے شادی کی جاسکتی ہے۔
خود کشی کرنے والا طالب علم اپنی اُستانی سے شادی کرنا چاہتا تھا۔انکار پر خود کو پشتول کے فائر سے اُڑا کر ختم کر لیا۔۔لوگ قیاس آرائیوں میں مصروف عمل ہیں اور جتنی منہ اُتنی باتیں ہو رہی ہیں۔بعض تو حکومت کو ملوث کر رہے ہیں۔میں حیران ہوتا ہوں گلی میں کتا بھی مر جائے تو الزام حکومت پر جا تا ہے لیکن کسی نے خود کا محاسبہ نہیں کیا۔اُس بچے کے گھریلو حالات جاننے کی کوشش نہیں کی۔اُس کا رویہ کیسا رہا تھا۔اس کی تربیت کیسی تھی۔؟اس کا گھریلو ماحول کیسا تھا؟اس بارے کسی کو فرصت نہیں تھی۔کسی بھی شخص ،بچے کی پہلی تربیت گھر سے ہوتی ہے ۔اگر گھر کا ماحول دوستانہ ہوتو اِنسان کبھی بھی راستہ نہیں بھٹک سکتا۔جب ایک گھر میں رہنے والے اپنی اپنی زندگی جینے لگیں تو خود کشی جیسے فعل ہونا یقینی ہیں۔خود کشی کرنے والے طالب علم نے خود کشی جیسا فعل کیا اور اپنے باپ کا پشتول دلیری کے ساتھ کلاس روم میں لے گیا۔۔۔ملک پہلے بھی حالت جنگ میں ہے ۔دہشت گردی کا جن آزادنہ گھوم رہا ہے ۔اب تو ہر سکول میں اسکیورٹی سختی سے پابند ہے ۔پھر اس طالب علم کا کلاس روم میں پشتول لے جانا سوالیہ نشان ضرور ہے ۔۔جب والدین اپنے اولاد سے توجہ ہٹا دیں گے تو اس طرح کے واقعات معمول بننے میں کوئی نہیں روک سکتا۔۔والدین کو چاہے اپنے گھر کا ماحول خوشگوار بنائیں اور گھر کا ماحول ایسا بنائیں کہ کوئی بھی بچہ خود کشی جیسا حرام فعل کی طرف راغب نہ ہو۔