تحریر: شیخ خالد زاہد زمانے میں بڑھتی ہوئی پریشانیوں کہ سبب سب سے غیر اہم شہہ زندگی ہو کر رہ گئی ہے۔۔۔زندگی اب صرف زندہ دلی کا نام نہیں رہی۔۔۔زندگی گزارنے کا خراج دینا پڑتا ہے یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ خراج گزرنے کا خراج مانگتی ہے ۔۔۔اور خراج دینا ہر کسی کہ بس کی بات نہیں۔۔۔خیراج دینے والے مخصوص لوگ ہوتے ہیں۔۔۔جو بظاہر اسی دنیا کہ لگتے ہیں مگر وہ کسی اور دنیا کی آئی ہوئی مخلوق ہیں۔۔۔وہ بطور خواص معاشرے میں جانے پہچانے جاتے ہیں عوام انکے لئے غیر اہم شہہ کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔۔۔ان تمام باتوں میں اختلافی پہلو اپنی جگہ۔۔مگر یہ اس دنیا کی حقیقت بنتی جا رہی ہے ۔۔۔پاکستان ان باتوں کی تصدیق کیلئے سب سے اہم جگہ ہے۔۔۔جہاں خاص اور عام بہت واضح فرق کہ ساتھ دیکھے جا سکتے ہیں۔۔۔ناانصافی، بے حسی اور لاپروائی اپنے عروج پر ہیں ۔۔۔انجیلینا جولی تو دیکھا اور دنیا کو بھی بتا یا کہ پاکستان جیسے غریب ملک کہ حکمران کس شاہانہ انداز سے رہتے ہیں۔۔۔
دورِ حاضر میں آسائشوں کا طوفان آیا ہو اہے ۔۔۔ان آسائشوں سے مستفید ہونا ہر دھڑکتے دل کی خواہش ہے۔۔۔ہر کوئی بمعہ اپنی کمزوریوں اور معذوریوں کہ ان آسائشوں اور سہولتوں کے حصول کیلئے بھاگ رہا ہے۔۔۔انتھک بھاگ رہا ہے ۔۔۔یہ تمام امور زندگی کو بھرپوربنانے اور گزارنے کی چاہا میں کئے جا رہے ہیں ۔۔۔اس چاہا کی تکمیل کیلئے انگنت راستے و راہداریاں دستیاب ہیں ۔۔۔آپ کسی بھی راستے کا تعین کر سکتے ہیں ۔۔۔تما م معاملات میں انسان کی زندگی اور وہ بھی صحت مند زندگی سب سے بنیادی عنصر ہے ۔۔۔انسان کو کچھ بھی کرنے کیلئے اسکے پاس زندگی ہونا ضروری ہے۔۔۔اسکی سانسوں کا تسلسل ضروری ہے۔۔۔زندگی ہے تو سب کچھ ہے اور زندگی نہیں تو کچھ بھی نہیں۔۔۔زندگی کی اہمیت سے کون واقف نہیں۔۔۔یہاں تک کہ عقل نہ رکھنے والا جانور بھی اپنی زندگی کہ دفاع میں سر دھڑ کی بازی لگا دیتا ہے ۔۔۔دنیا کی تمام رعنایاں زندگی کہ دم سے ہی ہیں۔۔۔محبتوں نفرتوں کا احساس زندگی کہ دم سے ہے ۔۔۔ جو دنیا سے ایک بار رخصت ہوگیا ۔۔۔بس وہ گیا۔۔۔کبھی نہ آنے کیلئے ۔۔۔ایک طرف زندگی آسان اور سہل ہے۔۔۔دوسری طرف دکھ اور تکلیفوں کا ڈھیر بھی ہے۔۔۔زندہ رہتے ہوئے ان تمام معاملات سے نمٹا جاسکتا ہے ۔۔۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئی اپنی زندگی جیسی نعمت اپنے ہاتھوں سے کیو ں اور کیسے ختم کر لیتا ہے ۔۔۔اپنی زندگی ختم کرنے یا حرفِ عام میں خودکشی کرنے کی بنیادی وجہ یقیناًخدااور اس کہ اختیارات پر ایمان نہ ہونا یا خدا کہ ہونے نا ہونے پر شک ہوسکتا ہے۔۔۔خدا تو دنیا کہ ہر مذہب میں ہے۔۔۔مایوسی خدا کہ وجود سے انکار کا نام ہے ۔۔۔جب انسان دنیاوی سہاروں سے مایوس ہوچکا ہو۔۔۔اسے کوئی بھی دنیاوی راستہ نہ سجھائی دے رہا اور اسکی بے چینی اور بے تابی اپنی حدوں کو چھونے لگے ۔۔۔دوسری طرف معاشرہ اپنی بے حسی کی بدولت کسی فرد کو بندگلی میں پہنچا دے ۔۔۔ پھر وہ وقت آتا ہے جب انسان باطل قوتوں کہ ہاتھوں مجبور ہوکرخدا کی دی ہوئی اپنی قیمتی ترین نعمت سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور خود سوزی یا خود کو موت کہ حوالے کر دیتاہے۔۔۔
Suicide Attacks
ہم خود کش بمباروں سے خوف ذدہ ہیں اور ہم ان عوامل سے خوف ذدہ ہیں جو ہماری زندگیوں کہ دشمن ہیں۔۔۔ہم اور ہماری حکومتیں انہیں تلاش کرنے کیلئے تمام تر توانائیاں بروئے کار لائے ہوئے ہیں۔۔۔یہاں تک کہ دنیا اس ایک نقطے پر ایسی متفق ہے جیسے پوری دنیا ایک ہی ملک ہو ۔۔۔خود کش حملہ آور بھی بنیادی طور پرخود سوزی یا خود کشی ہی کر رہا ہوتا ہے۔۔۔فرق یہ ہے کہ وہ اپنے ساتھ ان تمام جانداروں کو نشانہ بناتا ہے جو اسکے حقوق پر قابض ہوں یا اسے نظر آتے ہوںیا اسے اسطرح سے بتایا جاتا ہو ۔۔۔ان دونوں میں بہت مماثلت ہے ۔۔۔خودکشی کرنے والا زندگی سے دلبرداشتہ نہیں ہوتا بلکہ زندگی گزارنے کیلئے جو دنیا ہے اور دنیا میں رہنے والے افراد ہیں وہ ان سب سے نالاں و خفا ہوتا ہے ۔۔۔جو یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ اس دنیا نے اسے ٹھکرا دیا ہے یا وہ اس دنیا کہ قابل نہیں ہے(جیسا اسے دنیا عملی طور پر درس دے رہی ہوتی ہے)۔۔۔دوسری طرف خودکش حملہ آور اپنی خود کشی یا اپنی قیمتی ترین نعمت کی قربانی کسی اور کہ مذموم عزائم کو عملی جامہ پہنانے کیلئے کرتا ہے ۔۔۔دونوں اپنی اپنی خوبصورت زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔۔۔اپنی زندگیوں کہ ساتھ ساتھ انگنت زندگیوں میں بھی اندھیرہ کر دیتے ہیں۔۔۔مایوسی اور ناامیدی کو بڑھا دیتے ہیں۔۔۔خدا کی خدائی کو سوالیہ نشان بنا دیتے ہیں۔۔۔سوگ ہی سوگ ہر طرف پھیلا دیتے ہیں۔۔۔
خودکشی صرف ہمارا مسلۂ نہیں ہے ۔۔۔یہ ساری دنیا میں عام ہے ۔۔۔ہمارے یہاں لوگ ابھی پوری طرح سے خدا کی خدائی سے مایوس نہیں ہوئے ہیں۔۔۔خود کشی کا تناسب کہ حوالے سے مندرجہ ذیل لنک کہ توسط سے آپ جان سکتے ہیں دنیا کہ ان پچیس ممالک کہ بارے میں جو خودکشی کرنے واے ممالک میں سرِ فہرست ہیں۔۔۔
Injustice
اگر کسی کی بہن کی عزت پامال ہوگی۔۔۔اگر کسی کہ بھائی باپ یا خاندان کہ کسی بھی فرد کو ناحق قتل کر دیا جائے گا۔۔۔اگر کسی کی عمر بھر کی کمائی (بشمول بیٹی کا جہز)لٹ لی جائے گی۔۔۔تو آپ اس سے کس اچھائی کی امید کرتے ہیں۔۔ اگر کسی کہ بچے بھوک سے مر رہے ہونگے۔۔۔تو وہ سب کہ بچوں کی روٹی چھننے نکل کھڑا ہوگا۔۔۔یقین کیجئے !کوئی ایک فرد یا ایک واقع کسی کی خودکشی کا سبب نہیں بنتا یا کوئی ایک تبقہ خود کش بمبار بننے پر مجبور نہیں کرتا ۔۔۔ پورا معاشرہ ر خودکشی اور خودکش بنانے کہ ذمہ دار ہوتا ہے۔۔۔
معاشرے کی بے اعتنائی اور بے حسی کی بدولت جانے کتنے افراد خودکشی کرنے کی تیاری میں مصروف ہیں۔۔۔سڑک پر آپکو شائد ایسے لوگ ملے ہوں جو سڑک بہت بے دھیانی سے پار کررہے ہوتے ہیں۔۔۔یوں لگتا ہے جیسے وہ خودکشی کا آدھا ارادہ کر کہ نکلے ہیں۔۔۔اب اگر کوئی گاڑی والا ٹکر مار دے تو باقی آدھا کام اس کہ ذمہ ۔۔۔اگر کسی کہ ساتھ انصاف کہ تقاضے پورے نہیں ہونگے۔۔۔تو اپنا انصاف نافذ کرے گا۔۔۔
Balancing
اگر ہمارے مزاجوں میں توازن آجائے۔۔۔اگر ہمارے عمر رسیدہ بزرگ بن جائیں۔۔۔اگر ہمارے برتاؤ میں توازن آجائے۔۔۔اگر ہمارے لہجوں میں توازن آجائے۔۔۔اگر ہمارے اوڑھنے پہننے میں توازن آجائے۔۔۔اگر ہمارے میل جول میں توازن آجائے۔۔۔اگر ہمارے معاشرے میں توازن آجائے۔۔۔ ایک دوسرے کا احترام کرنے لگیں ۔۔۔بڑے چھوٹے کا خیال کرنے لگیں۔۔۔قطار میں لگنے لگیں۔۔۔گاڑی احتیاط سے چلائیں۔۔۔سڑک دھیان سے پار کریں۔۔۔کسی روتے ہوئے کو دلاسا دے دیں۔۔۔کسی معذور کو سہارا دے دیں۔۔۔کسی بے کس و مجبور کی مدد کردیں۔۔۔ہم سب مل کر معاشرہ میں توازن پیدا کردیں۔۔۔ بلاتفریق انصاف کی فراہمی ہوجائے۔۔۔ بلا تفریق صحت کی سہولیات میسر آجائیں۔۔۔ایک تعلیمی نظام ہوجائے۔۔۔پینے کا صاف پانی مل جائے ۔۔۔ ایسے تمام معاملات ۔۔۔تمام امور بلاتفریق ہونے لگیں تو خود کشی کا سدِ باب ہوجائے گا۔۔۔خود کش حملہ آور ایک معزز شہری بن جائے گا۔۔۔اسے بھی زندگی سے پیار ہوجائے گا ۔۔۔