پاک سرزمین کو اللہ تعالےٰ نے دنیا کی ہر نعمت سے نوازا ہے۔ یہاں فلک بوس چوٹیاں بھی ہیں اور جنت نظیر وادیاں بھی، سونا اُگلتی زرخیز زمینیں بھی ہیں اور زمین کے اندر تہ در تہ چھپے خزانے بھی، عمیق سمندر بھی ہے اور بہتے دریا بھی، گنگناتے جھرنے بھی ہیں اور بَل کھاتی ندیاں بھی۔ جغرافیائی حالت یہ کہ اقوامِ عالم کی نگاہیں اِس پر جمی ہوئیں۔ اقتصادی راہداری منصوبہ اِسی جغرافیائی حیثیت کی وجہ سے معرضِ وجود میں آیا۔ دنیا کا 33 فیصد سے زائد آبنائے ہرمز سے گزرتاہے جو گوادر سے قریب ترین۔ اقتصادی راہداری کی تکمیل پر پاکستان نہ صرف اقتصادی بلندیوں کو چھو سکتا ہے بلکہ اِس کی جغرافیائی اہمیت بھی فزوںتر ہو جائے گی۔ لیکن یہ بھی سچ کہ سب کچھ ہونے کے باوجود ہم کشکولِ گدائی لیے دَربدر۔ کبھی برادر ملک سعودی عرب کی منتیںترلے کرتے ہوئے اور کبھی آئی ایم ایف کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوتے ہوئے۔ کپتان نے کہاکہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بہتر ہے خودکشی۔ اب اُسی آئی ایم ایف کے درخواست گزار۔ اقبال کا درسِ خودی یہ کہ
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
لیکن کہاں کی غیرت اور کیسی غیرت، بھکاری اگر غیرت دکھائے گا تو کھائے گا کیا؟۔ اِسی لیے دھتکارنے کے باوجود ہم بار بار اُسی چوکھٹ پہ جا پہنچتے ہیںجہاں سے کچھ ملنے کی اُمید ہوتی ہے۔ آئی ایم ایف سے اکیس بار قرض لے چکے اور اب بائیسویں بار قرض کی تگ ودَو، وہ بھی بقول کپتان آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پر۔ تاریخ گواہ کہ آئی ایم ایف کے شکنجے میں آیاہوا کوئی ملک شاہراہِ ترقی پہ کبھی گامزن نہیں ہوالیکن ہم وہ بدنصیب جو اپنا گھر سنبھالنے کی بجائے بار بار اُسی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ گویا
میر کیا سادا ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب اُسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
قائد کی جیب کے کھوٹے سکوں نے ارضِ وطن کا حلیہ بگاڑنے کی بھرپور سعی کی۔ بار بار عود کر آنے والے مارشل لاء اِنہی کی حرصِ جاہ کا نتیجہ۔ ستّر سالوں میں سے آدھا وقت طالع آزما مسلط رہے اور باقی آدھے وقت میں بائیس وزرائے اعظم۔بھارتی وزیرِاعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے عشروں پہلے کہا تھا ”میں اتنے پائیجامے نہیں بدلتا، جتنے پاکستان میں وزیرِاعظم بدلتے ہیں”۔ عشرے گزر چکے، حالت مگر اب بھی وہی۔ عقل مند وہ جو تاریخ سے سبق سیکھے لیکن ہمارے بزعمِ خویش رَہنماؤں کو تاریخ سے سبق سیکھنے کی فرصت ہی کہاں۔ وہ آج بھی باہم جوتم پیزاراور سروں پر مارشل لاء کی لٹکتی تلوار۔
یہ سنتے سنتے کان پَک گئے کہ کرپشن کے مگرمچھوںکونشانِ عبرت بنا دیا جائے گا لیکن عمل کی توفیق کسی بھی حکمران کو نہیں ہوئی۔ پیپلزپارٹی کے دور میں ”غضب کرپشن کی عجب کہانیاں” مشہور ہوئیں تو میاں شہبازشریف نے اقتدار میں آکر کرپشن کے مگرمچھوں کو سڑکوں پہ گھسیٹنے کے بہت دعوے کیے لیکن جب اقتدار ملا تو خاموشی۔ اب کہا جا رہا ہے کہ نوازلیگ ترقیاتی کاموں میں مصروف تھی، اِس لیے کرپٹ لوگوں پر ہاتھ نہیں ڈالا جاسکا۔
آجکل کپتان بھی متواتر بڑھکیں لگا رہے ہیں کہ وہ کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑیں گے۔ وہ تحریکِ انصاف کے سوا باقی سب کو چور اور ڈاکو کہتے ہیں۔ شیخ رشید کی ”گدی” سنبھالنے والے فوادچودھری بھی متواتر چور، چور اور ڈاکو، ڈاکو کی رَٹ لگائے ہوئے ہیں لیکن اپنے گھر کی طرف دھیان اُن کا بھی نہیں۔ احتساب سے انکار کسی کو نہیں لیکن کپتان پہلے اپنے گھر کی صفائی تو کر لیں۔ قوم اتنی بھی اندھی نہیں کہ اُسے کپتان کے دائیں بائیں کرپٹ لوگ نظر نہ آتے ہوں۔ حقیقت یہ کہ تحریکِ انصاف کا سارا زور نوازلیگ، پیپلزپارٹی پر اور نَیب حکمرانوں کی دست وبازو۔ فوادچودھری تو یہاں تک بتا دیتے ہیں کہ کون کب گرفتار ہوگا۔ اُنہوں نے نہ صرف میاں نوازشریف بلکہ دیگر 50 سے زائد لیڈڑوں کی جیل جانے کی پیشین گوئی بھی کر دی۔ پتہ نہیں یہ فوادچودھری کی پیشین گوئی ہے، اندازہ یا اطلاع۔ اگر اطلاع ہے تو ظاہر ہے کہ اِس کا ”سورس” بھی احتساب عدالت ہی ہوگی۔
ایسے میں نیب اور عدلیہ کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے؟۔ میاں نوازشریف کے وکلائے صفائی خواجہ حارث اور زبیر خالد نے احتساب عدالت سے فوادچودھری کے بیان پر اَزخودنوٹس لینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا ”فوادچودھری نے کہا ہے کہ نوازشریف دو ریفرنسز میں سو فیصد جیل جائیں گے۔ یہ فوادچودھری کی عدالت پر اثرانداز ہونے کی کوشش ہے۔ اُن کو الہام ہوا یا چڑیا آکر بتاتی ہے”۔ احتساب عدالت کے جج نے کہا کہ وہ آجکل ٹی وی نہیں دیکھتے۔ اُنہوں نے فوادچودھری کا انٹرویو نہیں سنا۔ انٹرویو کا پورا جائزہ لے کر اگر نوٹس کرنا ہوا تو کر دیںگے۔ نوازشریف کے وکیل زبیرخالد نے کہا کہ نوازشریف کی سزا سے متعلق فوادچودھری کے بیان کے حوالے سے عدالت کو اپنے وقار کے دفاع کا مکمل قانونی اختیار حاصل ہے۔ احتساب عدالت نے اِس معاملے پر نوازشریف کے وکلاء کو باقاعدہ درخواست دینے کے لیے کہا۔ اب دیکھتے ہیں کہ نَیب عدالت فوادچودھری کے خلاف کیا ایکشن لیتی ہے۔
یہ سبھی جانتے ہیں کہ قومی احتساب بیورو(نَیب) کی تشکیل کا مقصد کرپشن کا خاتمہ نہیںبلکہ سیاستدانوں کے گرد شکنجہ کَسنا تھاتاکہ کسی کو آمر پرویزمشرف کے سامنے دَم مارنے کی مجال نہ رہے۔ جو ڈرگئے، اُنہیںپرویزمشرف کی قائم کردہ قاف لیگ میںپناہ مل گئی اور جو ڈَٹ گئے، عقوبت خانوں کی نذر ہو گئے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ جمہوری حکومتیں نَیب قوانین میں ترامیم کرکے اِسے قابلِ عمل بناتیں لیکن ایسا ہوا نہیں اور اب بھی نَیب کو حکمران بطور ہتھیار ہی استعمال کرتے ہیں۔ عدلیہ کا احترام البتہ اب بھی باقی ہے اِسی لیے قوم کی نظریں حکمرانوں کی بجائے بار بار ”بابارحمت” کی طرف اُٹھتی ہیں۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس محترم میاںثاقب نثار نے بہت کم وقت میں یہ ثابت کر دیا کہ اُن کے سینے میں دھڑکتا ہوا دل قومی درد سے معمور ہے۔ اِسی لیے وہ قوم کی اُمیدوں کا محورومرکز بن چکے۔
اُنہوں نے جہاں اور کئی اَزخودنوٹسز لیے ہیں، وہاں فوادچودھری کے خلاف ایک اَزخود نوٹس اور سہی۔ ویسے یہ نوٹس بنتا بھی ہے کیونکہ پوری دنیا میںطے شدہ اصول یہی ہے کہ زیرِسماعت مقدمات پر بات نہیں کی جاتی۔ لیکن یہاں تو عالم یہ کہ حکمران جماعت الگ سے اپنی عدالت جما کر پیشگی فیصلے صادر کر رہی ہے اور بدقسمتی سے جب عدالتی فیصلہ آتا ہے تو وہی جس کے بارے میں قوم کو پہلے سے آگاہ کیا جا چکا ہوتا ہے۔ اِس سے لامحالہ یہی تاثر ابھرتا ہے کہ عدلیہ حکمرانوں کی مَن مرضی کے فیصلے کر رہی ہے۔ انتہائی محترم میاں ثاقب نثار ہم سے بہتر جانتے ہیں کہ ایسا تاثر ابھرنا عدلیہ کے وقار کے لیے سُمِ قاتل ہے۔ اُنہوں نے جہاں اور کئی لائقِ تحسین فیصلے کیے، وہاں اپنی مدت ملازمت ختم ہونے سے پہلے یہ فیصلہ بھی کر جائیں کہ کوئی بھی شخص (خواہ وہ کسی بھی منصب پر فائزہو) زیرِسماعت مقدمات کو زیرِبحث نہیں لاسکتا اور اگر کوئی ایسا کرے گا تو اُس کے لیے کڑی سزا کا تعین بھی چیف صاحب خود ہی کر جائیں۔