ہمیں رتی بھر بھی شرم نہیں آتی

Newspapers

Newspapers

گزشتہ روز کے اخبارات پڑھنے کے بعد دِل میں ایک طوفان سا برپا ہو گیا لیکن جب لکھنے کیلئے بیٹھاتو ماضی میرے سامنے آن کھڑا ہوا اور مُجھ سے پوچھنے لگا کہ یہ جو طوفان تیرے دِل میں اس وقت برپا ہے اور جس انداز سے تو اس کی عکاسی کرنے جا رہا ہے اسی ہی انداز میں تونے پہلے بھی تو متعدد بار لکھا ہے کبھی خبر کے روپ میں ، کبھی ڈائری کے روپ میں تو کبھی کالم کی شکل میںایسے ایسے حقائق رپورٹ کئے ہیں جنہیں لکھتے وقت لوگ سو سو بار سوچتے ہیں،مگرتونے یہ سب بغیر کسی خوف خطرکے بغیر سوچے سمجھے جو لکھا یا رپورٹ کیا اس نے تُجھے جیل کی سلاخوں ،جسم پر گہرے زخموں اور مفت کی مخالف و رسوائی اور بلیک میلر جیسے سیاہ نام کے سوا آج تک دیا ہی کیا ہے ،جس جنگ کو تُو نے خود پر مسلط کر رکھا ہے اس میں تیرا ساتھ دینا تو بہت دور کی بات تُجھے تو آج تک کسی تیرے ہی (میڈیا کے) ادارے نے حوصلہ تک بھی دینا گوارا نہیںکیا اور جن لوگوں (مطلب قارئین ) کا تودلدادہ ہے وہ تو خود بیچارے مجبور اور بے بس ہیں ،ان حالات میںتُجھے کون تحفظ دیگا؟ تُو اپنے ماضی سے سبق کیوں نہیں سیکھتا جس نے تُجھے تھوڑی سی ہی صحافتی عمر میں اتنے سارے زخموں سے نوازدیا لہذا بڑے بڑے لوگوں کی طرح اصل حقائق کی طرف جانے کی بجائے تُو بھی اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لے اور ٹی سی شروع کردے،ورنہ جان سے جائے گا یا اب پھر جیل میں کیونکہ یہ حضرت عمرِ فاروق کا دورِ خلافت تو ہے۔

نہیںجنہوں نے یہ جمہوریت متعارف کروائی، اور جن کے دور حکومت میں جانوروں کے حقوق کو بھی بخوبی تحفظ دیا جاتا تھا ،جن کے عدل و انصاف کے پوری دُنیا میں آج بھی چرچے عام ہیں، جن کے متعلق غیر مسلم بھی کہا کرتے تھے کہ عمر اگر کچھ ہی عرصہ اور حکومت کر جاتے تو کفر کا نام و نشان دُنیا بھر سے مِٹ جاتا ،جن کے دورِ حکومت میں زکواة تک مستحق کوئی نہ رہا تھا،اور جن کی شہادت خبر دن بھر جنگل میں پھرنے والے ایک گڈریئے نے آکر کچھ اِس طرح سے دی تھی کہ سنو سنو گائوں والو ،عمر آج اس دنیا میں نہیں رہے سوال ہوا اس بات کا کیا ثبوت ہے تو گڈریئے نے جواب دیا کہ جب تک عمر زندہ تھے تک میری بکریاں بلا خطر و خوف جنگل میں پھرا کرتی تھیں مگر آج میری بکری ایک بھیڑیا کھا گیا ہے جس سے مجھے یقین ہوگیا ہے کہ عمر اب اس دنیا میں نہیں رہے ورنہ یہ بھیڑیا کبھی میری بکری پر حملہ نہ کرتا۔

میرے ماضی کے ان سوالات کا سلسلہ ابھی جاری ہی تھا کہ میرے ضمیر نے مجھے آواز دی کہ تو نے جو کیا وہ اچھا کیا ماضی کی باتوں پہ نہ جائو،زندگی و موت اور عزت و ذلت تو صرف اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے ،حق و سچ کی خاطر مرنے والا کبھی نہیں مرتا بلکہ شہادت کا رتبہ پانے کے ساتھ ساتھ اپنے جیسے ہزاروں پیدا کر جاتا ہے ،اپنے ضمیر کی یہ بات سنتے ہی تھوڑی ہمت بڑھی اور انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑا کہ اس دور کی حکومت بھی ہاتھ میں تو اُنہیں کے پیرو کاروں کے ہے مگر اُنہیں ہر وقت اپنی قوم و آخرت کی فقر رہتی تھی جبکہ اِنہیں تخت وتاج محل و دولت کے سوا کوئی خبر فکر ہی نہیں، چاہے کوئی کسی کوزندہ جلا ڈالے ،یا زہر دے کرمار ڈالے ،چاہے کوئی غربت کا ما را خود کشی کر لے یا نا انصافی کا مارا جل مرے ،نہ جلد وزیر اعلیٰ تک کوئی خبر پہنچتی ہے کہ نچلی سطح پر کیا ہو رہا ہے اور نہ ہی وزیر اعظم تک ،اسی ہی لئے تو سو میں سے ایک پر نوٹس لیا جاتا ہے

Police

Police

وہ بھی کاغذی کاروائی کی حد تک ہی رہ جاتا ہے ورنہ یہاں بھی انصاف کا بول بالا ہوتا ،انصاف کے منتظر خودکُشیاں نہ کر رہے ہوتے ،فاقہ کشی کی ماری عورتیں اپنے بچے قتل نہ کر رہی ہوتیں،ان حالات میں اگر کوئی میڈیا پرسن (کالمسٹ یارپورٹر)اصل حکائق کو اُن تک پہنچانے کی کوشش کر تا بھی ہے تو پولیس اُس کے خلاف مقدمات ہی اتنے درج کرتی ہے کہ اُسے دوربارہ حکائق لکھنے کی ہوش ہی نہیں رہتی ،چلیں ان کو تو ان کے کسی نہ کسی اچھائی یا برائی کی ہی سزا ملتی ہے،یہاں تو مسلم ٹائون لاہورپولیس جیسی پولیس ذاتی مفادات کی خاطر اُن بچوںپر بھی مقدمات درج کرڈالتی ہے جنہیوں نے ابھی تک چلنا پھرنا تو بہت دور کی بات ٹھیک طرح سے بولنا بھی ابھی نہیں سیکھا ہوتا ، اور پاکپتن جیسے علاقوں کی پولیس کوتو اگر مال ٹھیک مِل جائے تو یہ برسوں کے مرے ہوئے لوگوں پر بھی مقدمات درج کر ڈالتی ہے۔

جہاں ایسے حالات ہوں وہاں سے کیسے انصاف مِل سکتا ہے اورجہاں کی میڈیا عوامی مسائل کو اجاگر کرنے کی بجائے کالے دھندے چھپانے کیلئے صحافت کرتی ہو ،جہاںکے صحافی لفافے ،کوٹھیاں، گاڑی،بنگلوں،یا پھر رہائشی و کمرشل پلاٹوں کی بجائے ایک ایک سوٹ پر بھی بک جاتے ہوں،وہاں کی میڈیا پر کون اعتماد کر سکتا ہے خیر یہ توکچھ بھی نہیںپاکستان کے بعض علاقوں میں تو پیسوں کا لین دین ڈنکے کی چوٹ پر کیا جاتا ہے جنہیں کوئی پوچھ کچھ کرنے والا نہیں ہر طرف منتھلیوں کا راج ہے کہیں ٹاوٹ مافیا ڈیل کر رہاہے تو کہیںپولیس خود مجرموں کے گھر جا پہنچتی ہے ،ہر کام لے الگ الگ ریٹ ہیں،جن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سائیکلوں کو پنکچر لگانے والے، لوگوں کو مردہ بھینسوں کا گوشت کھلانے والے ،بندر نچانے والے اور دائے حضرات بھی رات و رات لیڈر بن جاتے ہیں،جو بعد میں شریف اور ایماندار لوگوں سے جینے تک کا حق بھی چھین لیتے ہیں،ان حالات میں جمہوریت متعارف کروانے والے کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے حکمرانوں کو سسٹم میں موجود خامیوں کو درست کرنے کی بجائے سٹیج پر آکر یہ کہتے وقت کہ جمہورت مظبوط ہو رہی ہے جمہوریت مستہقم ہو رہی ہے ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے ایک رتی برابر بھی شر م نہیں آتی۔

اگر لوٹ مار کے گرما گرم بازاروں کا نام ،لوگوں کے خون چوسنے کا نام ،عوام کو خودکشیوں پر مجبور کردینے کا نام ،جھوٹے مقدمات کے ذریعے حق و سچ کی آواز بلند کرنے والوں کی آواز دبانے کا نام ،لوگوں کو جعلی مقابلوں پار کروانے کا نام ، انصاف بیچنے کا نام اور ترقیاتی منصوبوں کے نام پر سرکاری خزانے لوٹنے کا نام ہی جمہوریت ہے تو اس بہترین جمہوریت سے بد ترین آمریت ہی بہتر ہے ،خدا ہمیں ان خامیوں کودرست کرتے ہوئے حقیقی و انقلابی جمہوریت لانے کی توفیق عطا فرمائے:آمین (فی ایمان ِللہ)

Mohammad Amjad Khan

Mohammad Amjad Khan

تحریر:محمد امجد خان