تحریر: حکیم سید شاہ تقی حسن بلخی فردوسی ہندوستان کی زمین خوش نصیب زمین رہی ہے۔ یہاں شری کرشن کی بنسی کے دل نواز و پرکیف نغمے ، جو فضائے بسیط میں مرتعش اور بکھرے ہوئے ہیں ؛ اس کی جاذبیت و کشش اب تک جوگ و روحانیت کے متوالوں کو دوسری جگہوں سے یہاں برابر کھینچ لاتی رہی۔ بلکہ کتنے صاحبِ تاج و تخت اپنے تخت و تاج کو تیاگ کر یہاں آ بسے۔ حضرت مخدوم شہاب الدین پیر جگجوت جٹھلوی جو کاشغر کے ، حضرت مخدوم اشرف جہانگیر جو سمنان کے، مولانا مظفر بلخی جو بلخ کے فرما روا و بادشاہ تھے، یہیں کی زمین کو انھوں نے رشدو ہدایت، ایثار و محبت، تعمیر انسانیت اور خدمت خلق کے لیے اپنا لیا، اور یہیں کے باشندہ ہو گئے۔ ان کے علاوہ بھی ایسے بہت سے سلاطین و بادشاہان کی طویل فہرست مرتب کی جا سکتی ہے۔
صحیح فرمایا ہے سر گروہِ چشتیان حضرت ابو اسحاق چشتی نے اپنے مرید ابو احمد سے ” در ویشی بالا تر است از بادشاہی عرب و عجم۔ واللہ اگر ابو اسحاق را مُلک سلیمان دہند قبول نکند۔”یعنی فقیری و درویشی عرب و عجم کی بادشاہی سے بڑھ کر ہے۔ خدا کی قسم اگر ابو اسحاق کو ملک سلیمان بھی ملے تو وہ اس کو بھی قبول نہ کرے۔ جس کی ترجمانی خواجہ حافظ شیرازی نے”بخالِ ہندوش بخشم سمرقندو بخارارا ”سے کی ہے۔ انہیں قدیم اکابرین میں حضرت سلطان ہند غریب نواز خواجۂ خواجگان معین الدین اجمیری رحمتہ اللہ علیہ بھی ہیں۔ جنھوں نے اپنے مولد و وطن کو چھوڑ کر مختلف ممالک کی سیر کرتے ہوئے ہندوستان کی متبرک سرزمین اجمیر کو( جو انہیں کی مناسبت سے اجمیر شریف ہے) آ رہے۔
حضرت علی کا یہ فرمان کہ ” مجھے ہند سے محبت کی بو ملتی ہے” غالباً اسی کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے۔9 جمادی الآخر 537 ہجری کو حضرت خواجہ معین الدین سجستان میں پیدا ہوئے۔ والدمحترم کا نام غیاث الدین ، ماں کا نام بی بی ملکہ تھا۔ آپ حسنی سادات خانوادے سے تھے۔ سلسلۂ نسب حضرت علی سے جا ملتا ہے۔ گیارہ سال میں یہ در یتیم، یتیم ہو گیا تھا۔ تعلیم و تدریس کے لیے مختلف جگہوں پر جانا پڑا۔ قرآن شریف حفظ کیا۔ عربی و درسیات کی تکمیل سمر قند و عراق وغیرہ میں کی۔ ایک دن اپنے موروثی باغ میں جہاں انگور کی لت پھیلی ہوئی تھی ، رکھوالی فرما رہے تھے۔ ایک مجذوب حضرت ابراھیم قلند اُدھر آ نکلے۔ حضرت خواجہ نے ان کی بے حد خاطر تواضع کی۔ مجذوب موصوف نے اپنا جوٹھا حضرت کے منھ میں ڈال دیا۔ براویت مشہورہ اس کے کھانے سے خواجہ صاحب پر روحانیت و درویشی کا وہ غلبہ ہوا کہ تکمیل فقیری و درویشی کے لیے مرشد کامل کی تلاش میں وہاں سے چل نکلے نہ تخت و تاج میں نے لشکر سپاہ میں ہے جو بات مرد قلندر کی بارگاہ میں ہے
Vali Allah
مختلف اکابرین و صوفیا و درویش مثلاً حضرت غوث اعظم، شیخ الشیوخ شہاب الدین سہروردی، نجم الدین کبریٰ ، یوسف ہمدانی، محمود اصفہانی، شیخ احمد خضر ویہ بلخی وغیرہ کی روحانی صحبت میں بیٹھے، آخر ہارون( جو نواحی نیشاپور کا ایک قصبہ ہے) پہنچ کر حضرت عثمان ہارونی سے تکمیل روحانیت کی، اور مرید ہو کر خلعتِ خلافت سے نوازے گئے۔ حضرت عثمان ہارونی حضرت خواجہ کے متعلق فرماتے ہیں کہ معین الدین خدا کا پیارا ہے، جس کی مریدی پر مجھے فخر ہے۔ اللہ اللہ! یہ ہے مقام ہمارے خواجہ غریب نواز کا۔ بیس سال حضرت خواجہ عثمان ہارونی کی خدمت بابرکت میں رہے۔پھر حسب اشارۂ نبویہ و پیر و مرشد ہندوستان کے لیے روانہ ہوئے۔ لاہور پہنچ کرحضرت علی ہجویری، داتا گنج بخش لاہوری کے مزار پر انوار پر چلہ کش ہو کر 560 ہجری میں جو راجہ رائے پتھورہ کا زمانہ تھا ، دارالخیر اجمیر میں آکر مقیم ہو گئے۔
حضرت کے سب سے پہلے مرید سید حسین خنک سوار ہوئے جو شیعی المسلک تھے ۔ ان کی قبر اجمیر میں ہی تارا گڑھ پہاڑ پر ہے۔ انھیں کے بھائی سید وجہیہ الدین کی دختر نیک اختر بی بی عصمت سے حضرت خواجہ کی پہلی شادی ہوئی۔ دوسری شادی امت اللہ جو ایک راجہ کی لڑکی تھیں، ان سے ہوئی۔ دونوں سے اولادیں ہوئیں، جس کی تفصیل کتابوں میں مذکور ہے۔ بروایت صحیح ہندوستان میں آپ پہلے چشتی بزرگ تھے۔ سلسلۂ بعیت حضرت ابو اسحاق چشتی اور حضرت سلطان ابراہیم ادھم بلخی سے ہوتا ہوا حضرت علی سے جا ملتا ہے۔چشتی لقب سے حضرت ابو اسحاق المتوفی 940 ء سب سے پہلے منسوب ہوئے۔(چشت خراسان کے ایک مشہور شہر کا نام ہے، جو ہرات کے قریب واقع ہے)۔ حضرت خواجہ کا زمانہ محمد غوری، قطب الدین ایبک، شمس الدین التمش کا زمانہ ہے۔ حضرت کے ممتاز خلفاء میں حضرت قطب الدین بختیار کاکی ، حمید الدین ناگوری، عبد اللہ المعروف بہ جیپال جوگی گزرے ہیں۔ پھر بابا فرید الدین گنج شکر ، محبوب الٰہی نظام الدین اولیا، علائو الدین صابر،نصیر الدین چراغ دہلوی وغیرہ سے ، جو اسی خانوادے سے متعلق ہیں۔ اس سلسلہ چشتیہ کی کثیر اشاعت ہوئی اور رشد و ہدایت کا فیضان عام ہوا۔
آپ کی تصانیف کے متعلق عام خیال یہی ہے کہ صرف ایک ملفوظات کا مجموعہ دلیل العارفین، جس کو آپ کے خلیفہ حضرت قطب الدین بختیار کاکی نے جمع کیا ہے، پایا جاتا ہے۔ ہاں! انیس الارواح کو بھی کہہ سکتے ہیں جو حضرت عثمان ہارونی کی صحبت میں رہ کر خود خواجہ غریب نواز نے اپنے پیر و مرشد کے ملفوظات و اقوال کو جمع و مرتب فرمایا ہے، وہ بھی موجود ہے۔ ایک دیوان بھی ”دیوان معین” کے نام سے طبع ہو چکا ہے۔ ”گنج الاسرار” بھی ایک کتاب حضرت خواجہ کی طرف منسوب کی جاتی ہے۔ مگر اس کتاب و دیوان کو مشتبہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کتاب کا ایک قلمی نسخہ اس فقیر کے کتب خانہ میں 1108 ہجری کا مطبوعہ موجود ہے۔
حضرت خواجہ غریب نواز کا انتقال 6 رجب 633 ہجری میں اجمیر شریف میں ہوا اور وہیں آپ کا مزار پر انوار بھی ہے۔ جہاں آپ کا عرس ہر سال بڑے اہتمام سے منایا جا تا ہے۔ ہند و غیر ہند کے لاکھوں زائرین اس میں شریک ہوتے ہیں۔ مختلف عمارتیں ، درگاہ معلی پر مختلف سلاطین نے مختلف ادوار و اوقات میں نذرِ عقیدت کے طو رپر بنائی ہیں۔ ان میں شاہ جہاں کے دور کی بنائی ہوئی سنگ مرمر کی مسجد خاص طور سے قابل ذکر ہے۔ شاہ جہاں، جہاں گیر، عالم گیر، اکبر اور دیگر سلاطین وقت نے بارہا پیادہ پا چل کر اس آستانہ پر جبہ سائی کی اور نذرِ عقیدت پیش کیا ہے۔یہ سارے واقعات اخبار الاخیار، سیر الاولیائ، سفینتہ الاولیائ، خزینتہ الاولیا، ماثر عالم گیری، تاریخ فرشتہ، اکبر نامہ، تزک جہانگیری، دلیل العارفین، انیس الارواح وغیرہ سے ماخوذ ہیں۔
Moinuddin Chishti
وقت کی تنگی مانع ہے کہ ہم تفصیلات میں جائیں۔ اب آپ کے چند اقوال و فرمودات کو جس سے کچھ یہ معلوم ہو سکے کہ آپ کا طریقۂ کار، جذبۂ روحانی، مسلک درویشی کیا تھا، تبرکاً عرض کرتا ہوں۔ فرماتے ہیں کہ ”عارف کی خصلت ایثار ہے۔ راہ سلوک میں گورستان میں قہقہہ اور کھانا گناہ ہے۔” ذکر رسول کرتے تو رو پڑتے اور فرماتے کہ جو آپ سے شرمندہ ہوگا وہ کہاں جائے گا؟ اسی طرح جب عذاب قبر کا تذکرہ ہوتا تو اتنا روتے کہ چیخ نکل جاتی۔ فرمایا ”عاشق کا عشق سب کو خاکستر کر دیتا ہے۔سخاوت دریاجیسی، شفقت آفتاب جیسی، تواضع و فروتنی زمین جیسی چاہیے۔نیکوں کی صحبت کارِ نیک سے بہتراور بروں کی صحبت کارِ بد سے بدتر ہے۔ علامتِ عارف موت کو دوست رکھنا ، ترک راحت اور مولیٰ سے محبت ہے۔ عارف ایک ایسا آفتاب ہے جس کی روشنی و نور سے عالم منور و روشن ہو۔ طریقت خدمت خلق کا نام ہے، بغیر پیرویٔ شریعتِ نبی کریمۖ طریقت و معرفت حاصل نہیں ہو سکتی۔ ”