سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ دنیا کو سورج کی سطح پر غیر معمولی سکون یا ٹھہرائو کا سامنا ہے یا آسان لفظوں میں یوں سمجھ لیجئے کہ سورج سو رہا ہے۔ سائنسدانوں کے لیئے یہ صورتحال بہت ہی حیران کن ہے اور وہ یہ جاننے کی کوششوں میں مصروف ہیں کہ سورج پر آنے والے شمسی طوفانوں میں کمی کے دنیا پر کب اور کیا اثرات مرتب ہونگے۔ ماضی میں کیئے گئے تجربات کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جب کبھی بھی سورج پر شمسی طوفان کا آنا بند یا کم ہو جاتا ہے دنیا سخت سردی کی لپیٹ میں آجاتی ہے۔ اس مرتبہ سورج کی سطح پر شمسی طوفانوں میں کمی کا زمین کی سطح یا گلوبل وارمنگ پر کیا اثر ہوگا اس کا بھی جائزہ زور و شور سے لیا جا رہا ہے۔ بی بی سی کی ایک نامہ نگار بیگا مورال جو سائنس کی سطح پر جانچ پڑتال کا کام سر انجام دیتی ہیں نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ شمالی روشنیاں، دنیا اور سورج کے درمیان انتہائی قریبی تعلق کی یاد دہانی کراتی رہتی ہیں۔
سورج کی شعائیں یا جنہیں ” سولر ونڈز” بھی کہہ سکتے ہیں، جب زمین کے ارد گرد کے ماحول سے ٹکراتی ہیں تو شمالی روشنیاں یا ” آرور ابورمی ایلس” بنتا ہے۔ لیکن خدشہ یہ ہے کہ جلد ہی یہ دلکش اور حیرت انگیز مناظر نظر آنا بند ہو جائیں گے۔ یہ سب کچھ سورج کی سطح پر آنے والے تغیرات کی وجہ سے ہو رہا ہے اور اس کی سطح پر شمسی طوفان تیزی سے تھم رہے ہیں۔ پروفیسر رچرڈ ہیرسن کا کہنا ہے کہ آپ جو کچھ بھی کر لیں ” سولر پیکس ” میں کمی واقع ہر وہی ہے اور سورج کی سطح پر بلند ہونے والے شعلوں سے یہ بات بالکل واضح ہے۔ شمالی روشنیوں کا منظر بڑا دلکش ہوتا ہے۔
ایک تحقیقی نتائج سے یہ ظاہر ہوا کہ سورج جیسے ستارے کی عمومی طور پر عمر دس بلین سال ہوتی ہے۔ جب سورج پر موجود تمام ہائیڈروجن ہیلیم میں تبدیل ہو جائے گی تو سورج کا مرکز یا کور ٹوٹ کر درجہ حرارت میں اضافے کا باعث بنے گا۔ اس کا حتمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ سورج پر موجود ہیلیم کاربن ایٹموں میں تبدیل ہونا شروع ہو جائے گی۔ دہکتا، آگ برساتا سورج نظام شمسی کا مرکز سورج ہی ہے۔ سورج کا اپنا رنگ سفید ہے تاہم زمین سے دیکھنے پر یہ پیلا اور نارنجی دکھائی دیتا ہے۔ اس کے پیلے یا نارنجی دکھائی دینے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی روشنی کی اسپیکٹرم کلاس جی ٹو وی ہے۔ جی ٹو سے مراد سطح پر پایا جانا والا درجہ حرارت اور سی سے مراد اس کی روشنی کا باعث بننے والے وہ دھماکے ہیں جو جوہری عمل کے نتیجے میں ہو رہے ہیں۔
Sun
سورج کی سطح کا درجہ حرارت تقریباً پانچ ہزار پانچ سو دس درجہ سینٹی گریڈ ہے۔ جبکہ اس درجہ حرارت کا باعث بننے والا جوہری عمل، فیوڑن ری ایکشن یا عمل ایتلاف ہے۔ سورج سے زمین کا اوسط فاصلہ ایک سو انچاس اعشاریہ چھ ملین کلو میٹر ہے اور یہ فاصلہ روشنی آٹھ منٹ انیس سیکنڈ میں طے کرتی ہے۔ سورج کا مرکز یا کور تھر مونیو کلیئر ری ایکشن کی وجہ سے سب سے زیادہ گرم ہے اور وہاں کا درجہ حرارت ایک کروڑ درجے سینٹی گریڈ سے بھی زیادہ ہے۔ کور اور سطح کے درمیان کا درجہ حرارت بیس لاکھ درجہ سینٹی گریڈ ہے۔ پروفیسر رچرڈ کا کہنا ہے کہ سترہویں صدی میں کئی دہائیوں تک سورج کی سطح پر پیدا ہونے والے دھبے غائب ہو گئے تھے جس کی وجہ سے کرۂ شمالی میں شدید سردی ہوگئی تھی اور لندن کا دریائے ٹیمز منجمد ہو گیا تھا۔ ربیکا مورل کے مطابق سترہیوں کے اس دور کی پینٹگز سے پتہ چلتا ہے کہ منجمد دریائے ٹیمز پر ” سرمائی بازار” لگا کرتے ہیں۔
یورپ کی تاریخ کے اس سرد ترین دور کو ” مونڈر منیمیم ” کا نام اس سائنسدان کے نام پر دیا گیا تھا جس سے سورج پر ہونے والی سرگرمی میں کمی کا مشاہدہ کیا تھا۔ کہتے ہیں کہ اس وقت صرف دریائے ٹیمز ہی منجمد نہیں ہوا تھا بلکہ بحیرہ بالٹک بھی جم گیا تھا۔ شمالی یورپ میں فصلیں تباہ ہونے لگی تھیں اور قحط آنا شروع ہو گئے تھے۔ سورج پر سرگرمی میں کمی کا مطلب ہے آنے والی کئی دہائیوں میں زمین انتہائی سرد ہو سکتی ہے۔
صحیح بخاری، جلد دوم، حدیث نمبر 459 میں ہے کہ ابراہیم التیمی ان کے والد حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جب سورج غروب ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ تمہیں معلوم ہے کہ سورج کہا جاتا ہے میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول ۖصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوب جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ سورج جاتا ہے ضتیٰ کہ عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے۔ پھر (طلوع ہونے کی) اجازت مانگتا ہے تو اسے اجازت مل جاتی ہے اور عنقریب وہ وقت آئے گا کہ یہ (جاکر) سجدہ کرے گا تو وہ مقبول نہ ہوگا اور (طلوع ہونے کی ) اجازت چاہے گا تو اجازت نہ ملے گی بلکہ اسے حکم ہوگا کہ جہاں سے آیا ہے وہیں واپس چلا جا۔ اس وقت یہ مغرب سے طلوع ہوگا اور یہی اس آیتِ کریمہ کا مطلب ہے اور آفتاب اپنے ٹھکانے کی طرف چلتا رہتا ہے یہ اندازہ باندھا ہوا ہے اس کا جو زبردست ہے علم والا ہے۔
جس طرح موسم بدلنے کا ایک وقت ہوتا ہے اسی طرح وقت کے بدلنے کا بھی ایک موسم ہوتا ہے۔ حالات بدلتے ہی رہتے ہیں اور حالات کے ساتھ ساتھ حالت بھی بدل جاتی ہے۔ رات آجائے تو نیند بھی آہی جاتی ہے۔ وہ انسان کامیاب ہوتا ہے جس نے ابتلا کی تاریکیوں میں امید کا چراغ روشن رکھا۔ امید اس خوشی کا نام ہے جس کے انتظار میں غم کے ایام کٹ جاتے ہیں۔ امید کسی واقعہ کا نام نہیں یہ صرف مزاج کی ایک حالت ہے۔ فطرت کے مہربان ہونے پر یقین کا نام امید ہے ۔ اور ہر نئی صبح اسی امید پر شروع ہوتی ہے کہ آج بھی سورج نکلے گا۔
بات سورج کی چل رہی ہے تو یہ بھی بتا دیا جائے کہ کچھ سائنسدان تحقیق کی جستجو میں کئی ہزار سال پیچھے چلے گئے اور انہوں نے برف کی تہہ میں دبے ایسے ذرات کا مشاہدہ کیا ہے جو کبھی زمین کی فضا میں پائے جاتے تھے۔ ان ذرات سے سورج پر ہونے والی سرگرمی کے اتار ڑھائو کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ایک اور سائنسدان مائیک لویکورتھ جنہوں نے اس کا مشاہدہ کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ دس ہزار سال میں پہلی مرتبہ سورج کی سرگرمی میں اتنی تیزی سے کمی ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ برف کی تہہ اور سورج پر سرگرمی میں واقع ہونے والی کمی کا مشاہدہ کیا جائے تو بیس سے تیس فیصد تک اس بات کا امکان موجود ہے کہ آئندہ چالیس برس میں دنیا مونڈر مینیمم کے حالات کا شکار ہو جائے گی۔ سورج پر سرگرمی میں کمی کا مطلب ہے کہ سورج سے دنیا پر آنے والی بنفشی شعائووں میں کمی اور اس وجہ سے ” جیٹ اسٹریم ” متاثر ہو سکتی ہے۔ مائیک لویکورتھ کا کہنا ہے کہ جیٹ اسٹریم میں تبدیلی سے شمالی یورپ کو آنے والی گرم ہوائیں بند ہو سکتی ہیں۔
ویسے تو سورج ایک ہی ہے مگر پھر بھی اب روایتی طور پر اپنے ملک کے سورج کے لیئے اگر کچھ لکھنے کی سعی کی جائے تو کیا لکھا جائے، میں تو یہاں پر اختتامِ کلام شاعر ذوالفقار احمد یوسف کے اس شعر سے کرنا چاہوں گا۔
شکست کھا کے اندھیروں کی حکمرانی سے ہمارے دیس میں سورج نے خود کشی کر لی