تحریر : الیاس محمد حسین ایک شخص نے اپنے دوست سے کہا یار میری بیٹی کی گروتھ رک گئی ہے بڑی ہی نہیں ہو رہی۔ دوست نے ہنس کرکہا یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں بیٹی کا نام مہنگائی رکھ دو خودبخود بڑی ہو جائے گی۔ کوئی مجھ سے پوچھے آج کے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیاہے میں بغیر سوچے سمجھے جھٹ سے جواب دوں گا مہنگائی۔آپ دل پرہاتھ رکھ کر سوچئے کیا قیامت خیز مہنگائی نے عوام سے خوشیاں نہیں چھین لیں۔ یقینا ایسی ہی بات ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے مہنگائی کیوں ہوتی ہے اور کنٹرول کیوں نہیں ہورہی۔
ایک تو اس کا سیدھا سادا جواب یہ ہے کہ افراط زر بڑھنے سے چیزیں مہنگی ہونا یقینی بات ہے دوسرا کسی بھی معاملے میںچیک اینڈ بیلنس نہ ہونا بھی مہنگائی کا بڑا سبب ہے دونوں صورتوں میں ساری ذمہ داری حکومت کی ہے جس نے عوام کو حالات کے رحم وکرم پر بے سہارا چھوڑ دیاہے۔ بیشتر ترقی پذیر ممالک کے عوام بھی ان حالات کا شکار ہیں لیکن پاکستان کا تو باوا آدم ہی نرالاہے یہاں ادارے بڑے کمزور اور شخصیات انتہائی طاقتور ہیں جس کی بنیادی وجہ بیورو کریسی، جاگیر داروں، سیاستدانوں اور سرمایہ داروں کا غیر اعلانیہ اتحاد ہے بلکہ بات اس سے بھی آگے جا پہنچی ہے اس طبقہ کی آپس میں رشتہ داریاں ہیں اور ظاہر ہے مفادات بھی ایک۔۔۔پھر بھی ایک بات نتیجہ کے طور پر سامنے آتی ہے کہ ملک میں قانون صرف کمزور کیلئے ہے بازار چلے جائیں دس دکانوں کا وزٹ کرلیں ہر دکاندار کا اپنا ریٹ ہو گا کبھی دکاندار گاہک کی بہت عزت کرتا تھا اب گراں فروشوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں کوئی گاہک بحث کرے یا ریٹ کم کرنے پر اصرار کرے تو دکاندار ایک منٹ میں بے عزت کرکے رکھ دیتاہے۔
مجموعی طور پر اس رویے کی وجہ سے عام آدمی جس میں خریداری کی زیادہ استظاعت نہیں اس کیلئے تو اپنی عزت بچانا مشکل ہو جاتا ہے حکومت کے کرتادھرتا، وزیر مشیر اور انتظامی سربراہ بھی تسلیم کرتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں مہنگائی اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ لیکن بلند بانگ دعوؤں، لمبی چوڑی تقریروں اور حکومتی انتظامات کے باوجود خوفناک بات یہ ہے کہ اس مسئلہ کو کوئی حل کرنا نہیں چاہتا شاید اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ جوپارٹی بھی برسرِ اقتدار آتی ہے یا حالات جس سیاستدان کی فیور میں دکھائی دیتے ہیں بڑے بڑے سرمایہ دار، صنعتکار، فیکٹری مالکان اسی پارٹی میں شامل ہوکر حکومت کا حصہ بن جاتے ہیں یوں ان کی سدابہار بادشاہی قائم رہتی ہے۔
High Prices
اب حکومت کارروائی کرے تو کس کے خلاف۔ ہو شربا مہنگائی کی ایک بنیادی وجہ ہڈحرام، نااہل اور نکھٹو سرکاری اہلکار بھی ہیں جو سرکاری دفاتر میں بیٹھ کر مکھی پر مکھی ماتے رہتے ہیں مگر اصلاح احوال کیلئے کچھ کرتے ہیں نہ سائلین کی دادرسی۔ انہیں صرف اپنی جیبیں بھرنے کی پڑی رہتی ہے۔ ہمارا وطن ملٹی نیشنل کمپنیوں کیلئے سونے کی چڑیا بنا ہواہے یہ چیزوں کی مقدار کم کرتے جاتے ہیں قیمت وہی برقراررکھی جاتی ہے عورتیں ایک دوسرے سے کہتی ہیں پہلے واشنگ پائوڈر کا ایک پیکٹ لایا کرتی تھی اب2 لا رہی ہوں کپڑے پھر بھی نہیں دھوئے جاتے۔
اب اس بے چاری کو کیا خبر ان ملٹی نیشنل کمپنیوں نے عوام کا خون چوسنے کے لئے مقدار کم کرکے مہنگائی کا نیا طریقہ ایجاد کر لیا ہے۔ غضب خدا کا۔ ایک ہی کمپنی۔ ایک ہی فارمولا ایک ہی چیز کیلئے یہ سب چیزیں انڈیا میں سستی اور پاکستان میںکئی گنا مہنگی اس کیلئے کسی ماہر اقتصادیات کو ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں عام ساکوئی بھی شخص انگلیوںپر حساب کرکے دودھ کا دودھ پانی کا پانی الگ کر سکتا ہے حکومتوں کے رولے الگ ہیں وزیروں مشیروں کی مصروفیات اپنی۔ افسر سیاستدانوں کو خوش کرنے میں بازی لے جارہے ہیں تاکہ وہ اپنی منافع بخش اور پسندیدہ پوسٹوں پر سال ہا سال براجمان رہ سکیں اس صورت حال میں غریب غرباء کی کسے فکر ہے عام آدمی کی حیثیت تو اشرافیہ کے نزدیک کیڑے مکڑوں سے زیادہ نہیں۔ جناب وزیراعظم! جناب وزرا اعلیٰ! آپ عوام کیلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو قیمتیں ایک سال کیلئے منجمد کر دیں اس سے مہنگائی کے بے لگام گھوڑے کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
دوسرا پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو فعال کرنے کی اشد ضرورت ہے نیک نام، مخیر شخصیات، متحرک سماجی کارکنوں کو پرائس کنٹرول کمیٹیوں میں شامل کیا جائے جو مقدار اور معیار چیک کرنے کا اختیار رکھتے ہوں ان کو کچھ نہ کچھ اختیارات دینے سے مہنگائی کنٹرول کرنے میں مدد مل سکتی ہے، جناب وزیر اعظم ! جناب وزرا اعلیٰ! ان اقدامات کیلئے سرمائے کی قطعی ضرورت نہیں بلکہ آپ کی ذرا سی توجہ سے گراں فروشوں کی کمر ٹوٹ سکتی ہے آپ تو جان و دل سے عوام کی فلاح وبہبود کرنا چاہتے ہیں لیکن جو حکومتی اقدامات کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں ان سے سب کو خبرداررہنے کی ضرورت ہے، ملکی ترقی وخوشحالی کیلئے عوام کو ریلیف اور اشیائے صرف کی قیمتوں پر کنٹرول ناگزیر ہے۔