سنت کی اوٹ، فرائض سے فرار

Prophet Muhammad PBUH

Prophet Muhammad PBUH

تحریر : ممتاز ملک.پیرس

بیشک اللہ ایک ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔ اللہ کے آخری نبی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ نے اپنی پیغمبروں اور رسولوں کے سلسلے کو مکمل کر دیا ۔ اب قیامت تک کوئی نیا نبی نہیں آئے گا ۔ حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پاکیزگی ، سچائی ، امانت داری، ایمانداری، ایفائے عہد یعنی وعدہ نبھانے کے ساتھ ہر اس خوبی کی عملی تفسیر ہے جس کا کسی بھی بہترین انسان سے اللہ پاک کا تقاضا ہے ۔ اللہ پاک نے انسان کو جو بھی احکامات پیارے نبی و رسول کے ذریعے انسانیت تک بھیجیے ان سب پر عمل کرنے کی پہلی ذمہ داری اپنی نبی اور رسول پر ہی ڈالی ۔ تاکہ عام انسان ان احکامات سے بچنے کے لیئے حلیے نہ تراشے ۔ اور اس کے لیئے اس نے اپنے پیغمبروں کو انسانی جسم اور انسانی ضروریات کیساتھ بھیجا۔ وہ چاہتا تو اپنے احکامات پر عمل درآمد کے لیئے فرشتوں کو زمین پر اتار کر ہم سب پر مسلط کر دیتا ۔ اور ہم انکے احکامات ماننے پر مجبور ہوتے۔ اس وقت ہمارے دل و دماغ میں خود کو غلام اور بے بس سمجھے کا خیال رہتا۔ ظاہر ہے نہ فرشتوں کو بھوک لگتی ہے ، اور نہ ہی ان کے جذبات ہوتے ہیں ۔وہ تو اللہ کے ہر حکم پر صرف جی جناب ہی کہتے ہیں۔

گناہ کا فرشتوں سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ تو وہ ہمیں کوئی حکم خود پر گزار کر، محسوس کر کے کیسے بتا سکتے تھے ۔ کیونکہ وہ انسانی جذبات، ضروریات ،اور خواہشات سے پاک ہوتے ہیں۔ اسی لیئے اللہ پاک نے کمال مہربانی فرماتے ہوئے انسانوں پر انسانی وجود میں ہی نبی اور رسول اتارے ۔ اور ان کے ذریعے انسانوں کو بتایا کہ اس کا کوئی بھی حکم ایسا نہیں ہے جسے عام انسان باسہولت بجا نہ لا سکے۔

آج کے زمانے تک آتے آتے مسلمانوں میں اللہ تعالی کے احکامات سے راہ فرار اختیار کرنے کے بڑے بڑے حیلے بہانے اختیار کیئے ہیں ۔ لیکن خود سے ماننا بھی نہیں کہ وہ اللہ تعالی کے احکامات سے روگردانی کر رہا ہے ۔ تو اپنے ضمیر اور لوگوں کو دھوکا دینے کے لیئے نیکی کا کوئی سرٹیفیکیٹ بھی اپنے چہرے پر چپکانا چاہتا ہے۔ جس کے لیئے اس نے اللہ کے وہ احکامات جو ہمارے ایمان اور حساب کتاب کی بنیاد بنائے گئے ہیں۔ جن کے بنا بخشش ہی ممکن نہیں ہے ، کے بجائے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ مبارک کی نقل کو احکام الہی کی جگہ لا کر رکھ دیا۔

اللہ کے نبی کا کردار (جس کے لیئے اماں عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ جو قران ہے وہ رسول اللہ کا اخلاق و کردار ہے اور جو رسول اللہ کا اخلاق و کردار ہے وہی قرآن ہے۔) کا ان کی نظر میں کوئی مقام ہونے کے بجائے جہاں سنو نبی پاک کے حلیئے کی نقل پر شور مچایا جاتا ہے ۔ جب سوال کرو کہ کیا اللہ کے احکامات کی مکمل پیروی کرتے ہو تو بجائے جواب دینے کے آپ پر کفر کے فتوی لگانے لگائے گا۔ آپ کو مارنے دوڑے گا ۔ یعنی اپنی بدکرداریوں پر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیئے کی نقل کا پردہ ڈال دیگا۔ گویا وہ فرائض سے بھاگ کر سنت کی آوٹ میں چھپنا چاہتا ہے۔

جبکہ سنت تک پہنچنے کے قابل ہونے کے لیئے پہلے فرائض کا پل صراط پار کرنا پڑتا ہے ۔ اس کے بعد سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے لائق ہوا جاتا ہے ۔ روز حشر فرائض کے سوالات کیئے جائینگے۔ سنت کی باری بعد میں آئے گی ۔ فرائض پر ہی جنت اور جہنم کے فیصلے ہونگے۔ جب سنت ادا ہوئی تو مذید اچھا اور ادا نہ ہو پائی تو اس پر کوئی سزا قرآن پاک میں کہیں نہیں سنائی گئی۔

دیکھیئے تو خود مسلمانوں نے ہی سنت کا تماشا بنا کے رکھ دیا ہے۔ کیا حق ہے کسی چور اچکے بدکار ، اغوا کار، ڈاکو ، راشی ، جھوٹے ، بے نمازی ، والدین کے نافرمان ، اپنی اولاد اور بیوی کے حقوق سے متنفر و بے فکر ، بہن بھائیوں کا جانی دشمن، لچے ،تلنگے ، زانی کو میرے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اپنی غلیظ صورت پر چپکانے کی ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ریش مبارک کوئی فیشن نہیں ہے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے اور ان کا کردار (یعنی قرآنی احکامات کی پیروی ) ہونے کی پہچان اور اعلان ہے۔

ورنہ محض توہین رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔۔۔ کم از کم میں بطور ماں اپنے بیٹے کو اس وقت تک داڑھی رکھنے کی اجازت نہیں دونگی جب تک اس کے دل میں خدا خوفی پیدا نہ ہو جائے ۔ وہ اللہ کے احکامات پر عمل کرنے والا اور اپنے فرائض احسن انداز میں ادا کرنے والا نہ ہو جائے۔کیونکہ یہ فرائض ادا کرنے ، حقوق العباد ادا کرنے والے سے محبت کرنے والے رب کی اپنی محبوب ترین ہستی کے چہرے کی رونق کا معاملہ ہے کوئی مذاق نہیں۔۔۔

Mumtaz Malik

Mumtaz Malik

تحریر : ممتاز ملک.پیرس