بہاولنگر (ڈاکٹر میاں احسان باری) قائد اللہ اکبر تحریک ڈاکٹر احسان باری نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیونکہ ہمارے ملک میں 95 فیصد سے زائد مسلمان بستے ہیں اس لئے انہیں اسلامی نظام کے نفاذ، قرآن ، سنت اور فقہ کی روشنی میں اسلامی شرعی سزاؤں کے نفاذپرکوئی اعتراض نہ ہوگا۔
اس طرح سے ہنگامی اسلامی عدالتوں کا قیام عمل میں لا کر جلد از جلد انصاف فراہم کرنے کے تقاضے پورے ہوسکتے ہیں۔ انہوںنے کہا ملزمان خصوصاً دہشت گردوں کے خلاف مقدمات کی سماعت کرنے کیلئے عدالتوں میں ڈبل نہیں بلکہ ٹرپل سسٹم رائج کیاجائے ۔ تھانوں ، ہسپتالوں کی طرح سپریم کورٹ، ہائی کورٹس اور تمام دیگر عدالتیں چوبیس گھنٹے کھلی رہیں اور اس میں تین عدالتی شفٹس آٹھ،آٹھ گھنٹے کے لئے کام کرتی رہیں جس کیلئے مزید ججوں کی تعیناتی کیجائے۔
اسلامی سزاؤں کے نفاذ سے کوئی مجرم بلکہ نام نہاد دہشت گرد بھی چوں چراں نہیں کریں گے کہ وہ خود کئی بار اپنے علاقوں میں اسلامی شریعت کے مطابق فیصلے صادر کرتے رہے ہیں اور کئی کالعدم تنظیموں کا تو مطالبہ بھی شریعت کے نفاذ کا رہا ہے ۔ اس طرح سے شرعی اسلامی قوانین کی عدالتوں کے ذریعے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا اور ان کالعدم تنظیموں کے اخلاص کابھی امتحان ہوجائے گا کہ ان کے نعرے دکھاوے کیلئے تھے یا واقعی وہ اسلامی نظام کا نفاذ چاہتے تھے۔اگر ان کی طرف سے کوئی احتجاج ہوا تو سمجھ لیا جائے گا کہ یہ مسلمانوں کا روپ دھارے ہوئے کوئی یہود و نصاریٰ ، غیر مسلم یا بارڈر پار کے ہندو بنیئے اور ”را” کے لوگ ہیںجو پاک ملک میں دہشت گردانہ کاروائیوں میں ملوث ہیں۔
سعودی عرب اور بعض دیگر اسلامی ممالک کی طرح سپیڈی اسلامک کورٹس جلد از جلد فیصلوں کی پابند ہونگی اور جن سماجی، دینی تنظیموں ، وکلاء کی انجمنوں اور سیاسی و مذہبی جماعتوں کو بعض وجوہ پر نئی آئینی ترامیم پر اعتراض ہے وہ بھی یکسر ختم ہوجائے گایعنی سانپ بھی مرجائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔ مزید بہتری کیلئے ضروری ہے کہ ترجیحاًسزاؤں کا نفاذ بااثرا ور اوپر والے طبقے سے شروع کیا جائے۔ میاں باری نے سپریم کورٹ سے جو کہ آئین کی محافظ اور اس کی دفعات کی صحیح تعبیر کرنے کی اتھارٹی ہے مطالبہ کیا ہے کہ سویوموٹو لے کر موجودہ فوجی عدالتوں کے قیام اور آئینی ترمیم پر حکم امتناعی جاری کرکے شرعی قوانین کے نفاذ اور سپیڈی اسلامک کورٹس کے نظام کو رائج کردیں۔
تاکہ ملک میں ہمہ قسم دہشت گردوں کے خلاف جلد از جلد قانونی کاروائیاں مکمل ہوسکیں اور آئین پاکستان بھی مزید چھیڑ چھاڑ سے بچ جائے۔ انہوںنے واضح کیا کہ موجودہ اسمبلیاں چونکہ جعلی مینڈیٹ کی وجہ سے اپنی قانونی و اخلاقی حیثیت کھو چکی ہیں اس لئے ان کا پاس کردہ کوئی قانون یا ترمیم قابل قبول اور عوامی مقبولیت سے ہمکنار نہیں ہوسکتی۔