نیو یارک (جیوڈیسک) محققین نے ایک ایسی پراسیسر چِپ متعارف کرائی ہے جس کا حجم ایک ڈاک ٹکٹ کے برابر ہے تاہم اس کی کمپیوٹنگ طاقت ایک سپر کمپیوٹر کے برابر ہے۔ یہ چپ انسانی دماغ کے کام کرنے کے طریقہ کار پر تیار کی گئی ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق ’نیوروسائنیپٹک‘ کہلانے والی یہ پراسیسر چِپ ایک ایسی کامیابی ہے جو کمپیوٹنگ کے حوالے سے نئے امکانات مثلا بغیر ڈرائیور کے خود کار طریقے سے سفر کرنے والی کار یا ایک سمارٹ فون پر مصنوعی ذہانت پر مشتمل نظام وغیرہ کے در کھولے گی۔ یہ چِپ معروف امریکی کمپیوٹر ساز ادارے آئی بی ایم اور کورنل ٹیک کے ریسرچرز کے علاوہ دنیا بھر سے محققین کی مدد سے تیار کی گئی ہے۔
ماہرین کے مطابق ان چپس کے ذریعے جو کمپیوٹر بنائے جائیں گے انہیں ’کوگنیٹیو‘ یا علم رکھنے والے کمپیوٹرز کا نام دیا جائے گا اور یہ کمپیوٹر موجود کمپیوٹرز کی طرز پر کام کرنے کی بجائے مختلف چیزوں کے درمیان تعلق تلاش کرنے، مفروضہ سازی اور چیزوں کو یاد رکھتے ہوئے ان سے حاصل ہونے والے نتائج سے سیکھیں گے۔ اس نئی چپ کو “ٹرو نارتھ” کا نام دیا گیا ہے۔ اس چپ میں دراصل انتہائی جدید الگوردمز اور سیلیکان سرکٹس کے ذریعے انسانی دماغ کو حیرت انگیز طاقت عطا کرنے والے نیورونز اور معلومات کے تبادلے کے لیے استعمال ہونے والے خاص حصوں جیسے افعال پیدا کئے گئے ہیں۔
انسانی دماغ کے ڈیٹا پراسیس کرنے کے طریقہ کار کے مطابق اس چِپ میں ڈیجیٹل سرکٹس کے ذریعے ایسے ’کمپیوٹنگ کور‘ یا علاقے ترتیب دیے گئے ہیں جو بغیر کسی بیرونی سافٹ ویئر کے پراسیسنگ، رابطوں اور ڈیٹا کو ذخیرہ کرنے کے کام انجام دیتے ہیں۔ ایک ڈاک ٹکٹ جتنی سائز کی حامل یہ چپ 4,096 کورز اور 5.4 بلین ٹرانسسٹرز پر مشتمل ہے۔
اس چپ پر مشتمل کمپیوٹنگ نظام ریئل ٹائم انوائرنمنٹس یعنی پیچیدہ عوامل کے ظہور پذیر ہوتے ہوئے ان کا مشاہدہ کر نے اور ان کو چلانے کا اہل ہوگا۔ یہ افعال موجودہ کمپیوٹرز کے بس سے باہر ہیں۔