تحریر : قادر خان اس بات سے تو کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ کراچی کے حالات میں جتنی ، جس قدر بھی تبدیلی آئی ہے ، ایسے چاہیے امن کے کسی بھی وقفے کا نام دیں لیں ، لیکن اس بات کو تسلیم کرنا ہی ہوگا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے وہ کردکھایا ، جو کراچی کی عوام کا دیرینہ خواب تھا ۔” امن کا خواب” ، جس کی تعبیر وہ ہمیشہ دیکھتے رہے ہیں ، روشنیوں کے شہر کو دوبارہ ثقافتی سر گرمیوں کا مرکز ان کی آرزو بنی رہی اور نئی نسل تو امن کے نام سے ہی نا واقف ہوچکی تھی ، قانون نافذ کرنے اداروں نے چندبرسوں میں کراچی میں تابڑ توڑ آپریشنز کرکے دہشت گردوں اور “را “کے نیٹ ورک کو منتشر کردیا ، ہزاروں کی تعداد میں ملزمان بھی گرفتار کئے ۔ یہ بھی ممکن ہے ، اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان افراد میں بے گناہ بھی آگئے ہونگے اور انھیں بھی غلط مخبری پر تکلیف پہنچی ہوگی ۔لیکن کراچی میں امن کا خواب شرمندہ تعبیر کردیا گیا ، رات کی رونقیں لوٹ کر واپس آئیں ، را کے ایجنٹس بھاگنے پر مجبور ہوئے ، بڑی مچھلیوں پر بھی ہاتھ ڈالے گئے ، لیکن یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ رینجرز کب تک کراچی کے امن کیلئے اپنا کردار ادا کرتی رہے گی ، پولیس کو بھی آخر کارغیر سیاسی کردار ادا کرنے کی ضرورت تو ہے ۔ اے ڈی خواجہ نوحہ کب تک پڑھتے رہیں گے اور کراچی کے عوام کب یقین کاملہ پر اطمینان کی سانس لیں گے۔
یہ تو ناممکن ہے کہ ڈھائی کروڑ کی اس آبادی میں کوئی جرم ہی نہ ہو ، جرم بھی ہونگے ،، جرائم پیشہ عناصر کبھی سیاسی تو کبھی غیر سیاسی چھتری کا سہارا بھی لیں گے ۔ا س بات کی کوئی گارنٹی کوئی بھی نہیں دے سکتا کہ اس سیاست زدہ شہر کوجادو کی چھڑی گھوما کر ہمیشہ کیلئے پرامن بنا دیا جائے گا ، یہاں تعصب کی سیاست بھی ہوگی یہاں صوبائیت اور قوم پرستی بھی ہوگی اور یہاں تشدد کی سیاست بھی ہوگی ۔یہ زندہ انسانوں کی زندگی کا حصہ ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ گذشتہ دنوں لاہور میں افغانستان سے آنے والوں نے بھارتی ایجنڈے کے تحت پے در پے لاہور ، کوئٹہ اور پھر پشاور کو نشانہ بنایا ۔ لاہور کا نقصان بڑا نقصان اس حوالے سے زیادہ تھا کہ عوام کی خواہش تھی کہ انٹرنیشنل کرکٹ پاکستان میں واپس آجائے ، اس کیلئے پاکستان نےPSLجیسے مہنگے ایونٹ کا فائنل لاہور میں رکھ دیا ۔ یہ الگ بات ہے کہ نیکٹا کی جانب سے تھریٹ الرٹ لیٹر جاری ہوتے رہتے ہیں ، جیسے ہوا کو ہاتھ میں پکڑنا ہی قرار دیا جاسکتا ہے ۔ تاہم اس تمہید کا اولین مقصد یہ ہے کہ عالمی برادری میں ہم نے یہ ثابت کرنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ہماری جنگ کامیاب جا رہی ہے ۔ اس کیلئے لاہور میں اسپورٹس ایونٹ کرکے ایک مثبت پیغام دنیا کو دیا جانا ہے ، پاک فوج کے سربراہ سمیت مقتدر حلقے اس حوالے سے کافی پر امید ہیں کہ لاہور میں PSLکا فائنل کرایا جاسکتا ہے اور پوری کوشش کی جائے گی کہ یہ ایونٹ لاہور میں ہو۔ خوائش تو ہماری بھی ہے ، لیکن ایک سوال بھی ہے۔
یہاں میں نے ایک نقطے پر آواز اٹھائی جس کی گونج سٹی میئر کراچی کے بیان میں بھی گونجی کہ PSLکا فائنل کراچی میں کرادیا جائے تو کیا مضائقہ ہے ؟۔کراچی پاکستان میں سب سے زیادہ دہشت گردی کے ہاتھوں متاثر ہونے والا معاشی شہ رگ ہے ۔ اس شہر کو ملک قوم کے دشمنوں سے پاک کرنے کیلئے پولیس ، رینجرز اور فوج سمیت عوام نے بڑی قربانیاں دیں ہیں ۔ کراچی بین الاقوامی تجارتی اہمیت کا شہر ہے ۔ اگر یہاں امن قائم ہے اور PSLکا فائنل کراچی میں کرادیا جائے تو اس سے کیا دنیا کو مثبت پیغام نہیں جائے گا ؟گو کہ کراچی میں نیوی ، ائیر فورس بیس اور ائیر پورٹ پر دہشت گردوں کے حملے ہوچکے ہیں ، لیکن ان دہشت گردوں کے حملوں سے تو جی ایچ کیو ، پشاور ، کوئٹہ جیسے شہر اور حساس ادارے بھی محفوظ نہیں رہے ۔ لیکن کراچی میں دہشت گردی کے نیٹ ورک کو جس طرح توڑا گیا ہے ، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کراچی کے مقابلے میں کرائم میں اضافہ لاہور میں زیادہ ہے ، دہشت گردی کے واقعات لاہور میں بھیانک ہو چکے ہیں ، سری لنکن ٹیم واہگہ بارڈر سمیت کئی علاقوں میں بم بلاسٹ کیساتھ ساتھ صوبائی وزیر داخلہ شجاع خانزادہ شہید کی شہادت اور ماڈل ٹائون میں پولیس کی جانب سے فائرنگ میں عوامی تحریک کے12 کا جاں بحق ہونا ، اور آئے روز لاہور میں احتجاج ، اسٹریٹ کرائم کے سبب لاہور کے عوام کا جینا حرام ہوچکا ہے ۔لیکن اس کے مقابلے میں کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات جن کی تعداد کبھی بھی 20/25سے کم نہ تھی ، اب 90فیصد کم ہوگئی ہے ۔احتجاج کی صورت صرف کراچی پریس کلب تک محدود ہے۔
جرائم پیشہ اور اسٹریٹ کرائم کے خلاف پولیس اور رینجرز کا آپریشن جاری ہے ، بڑے دہشت گردی کے واقعات رونما ہونے کے بعد کراچی میں دہشت گردوں کی جانب سے آج تک خود کش بم دہماکہ نہیں ہوا ،زیادہ تر پلانٹ بم بلاسٹ یا روڈ سائیڈ بم بلاسٹ ہوئے ہیں ، ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اضافہ اب سیاسی کے بجائے مفاداتی بن گیا ہے ،ان حوالوں کے علاوہ بے شمار مثالیں دی جا سکتی ہیں کہ کراچی میں سیاسی سرگرمیاں پاکستان کے دوسرے شہروں کی طرح اپنے عروج پر ہیں ، یہاں تک کہ دہشت گردی کے ہاتھوں سب سے زیادہ ضانی نقصان اٹھانے والی سیاسی جماعت عوامی نیشنل پارٹی بھی کھلے عام ، بے خوف ہوکر جلسے کررہی ہے ۔ ایم کیو ایم کے دھڑے بازی ہونے کے باجود ماضی کی طرح حقیقی اور ایم کیو ایم میں مورچہ بند خانہ جنگیاں بھی نہیں ہیں ، مخالفین ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر ہنستے ہیں ، ہاتھ ملاتے ہیں اور چٹکلے سناتے ہیں، ہر سیاسی جماعت اپنی عوامی طاقت کا مظاہرہ کررہی ہے ، پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی ریلی اور جلسے کے صورت میں عوامی قوت کا مظاہرہ کیا ،کراچی کو بھی سی پیک منصوبے کا حصہ بنا لیا گیا ۔ وزیر اعلی سندھ کی ذاتی کوششوں سے کراچی میں روکے گئے ترقیاتی کام تیزی سے بنتے نظر آرہے ہیں ، میئر کراچی اپنے پسندیدہ علاقوں میں ، یو سیز کو ماڈل بنانے میں مصروف ہیں ، کراچی لٹریچر فیسٹول سمیت تہواروں کو جوش و خروش سے منایا جاتا ہے ۔ کیا یہ کراچی میں امن کے پیغام کے لئے ناکافی ہے۔PSLکے فائل کا انعقاد کا فیصلہ اگر کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں کرلیا جاتا تو کیا پورا کراچی امڈ نہیں آتا ، کیا پوری دنیا کی توجہ کراچی جیسے تجارتی شہر پر مرکوز نہیں ہوسکتی تھی ؟ ، جہاں کئی عشروں سے کوئی نئی صنعت نہیں لگی ۔کراچی سے جانے والے صنعت کار اور سرمایہ دار، کراچی میں دوبارہ واپس آکر یہاں کی بے روزگاری کو کم نہیں کرسکتے تھے۔
لیکن کراچی ارباب اختیار کیلئے ترجیح کیوں نہیں ہے ْ۔ اس کی کیا وجہ ہے ْ۔ کیا اس سے تعصب ، لسانیت اور صوبائیت کو فروغ نہیں مل رہا ، فرقہ واریت کا زہر تو پارا چنار سے لیکر جنوبی پنجاب میں جس قدر سریت کے ساتھ پھیلا ہوا ہے ، اس کا ایک جز بھی اگر بارود کے ڈھیر پر بیٹھے کراچی میں آجاتا تو کیا بھارتی ایجنڈا کامیاب نہیں ہوجاتا ۔ کراچی سے اس کی وفاقی حیثیت کو چھین کر مرگلہ کی پہاڑیوں میں آباد کرلیا گیا ۔ سندھ میں کوٹہ سسٹم رائج ہے ، اس کے خاتمے کے بجائے مسلسل اس کی ترویج کی جا رہی ہے ، لسانیت ، صوبائیت اور احساس محرومی کے خاتمے کیلئے پاکستان مسلم لیگ ن ، جس قدر غیر فعال ہے اسی طرح پی پی پی بھی موثر کردار ادا کررہی ہے ،۔ایم کیو ایم پاکستان ، لندن اور پاک سرزمین پارٹی نے اپنے ووٹوں کو تقسیم ہونے سے بچانے کیلئے گہری سیاسی چال چلی ہے ، جس میں وہ کامیاب نظر آتے ہیں ۔کراچی کی اکثریت آبادی کچی آبادیوں کے محنت کشوں پر مشتمل ہے ، زندگی کی بنیادی ضروریات سے محرومی ، کراچی کے حالات کے سبب بڑھتی چلی گئی ، اگر کراچی میں قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی جانو پر کھیل کر امن لا سکتے ہیں تو ضروری نہیں ہے کہ امن کے قیام کی مثال کیلئے ہمیشہ لاہور کا انتخاب کیا جائے ۔کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے اور سی پیک منصوبہ بن جانے کے بعد بھی اس کی قدر ومنزلت میں کمی واقع نہیں ہوگی ۔بلکہ بڑھ جائے گی۔
کیا ہم ایسے پنجاب کے حکمران خاندان کا تعصب سمجھیں کہ کراچی جیسے عالمی خطرناک ترین شہر کہلانے والے سٹی کو محفوظ ثابت کرنے کے لئے ہم PSLکا انعقاد کراچی میں نہیں کراسکتے۔ جب آئیڈیاز 2016جیسے اہم ترین ایونٹ کراچی میں نیشنل اسٹیڈیم سے دو قدم کے فاصلے ہوسکتے ہیں تو PSLجیسا ایونٹ کراچی میں کیوں نہیں ہوسکتا ۔ بحری مشقیں کراچی کی ساحلوں پر جوش و خروش کے ساتھ ہوسکتی ہیں تو کراچی میں PSLکیوں نہیں ہوسکتا ۔ لاہور سمیت پاکستان کے تمام شہر ہمارے اپنے ہیں ، ذاتی طور پر تو میرا دل چاہتا ہے کہ آئندہ PSL پاکستان کے اُس علاقے میں ہو ، جو دنیا میں دہشت گردی کا گھر سمجھا جاتا تھا ، اس اسٹیڈیم میں ہو ، جس کا افتتاح جنرل(ر) راحیل شریف نے شاہد خان آفریدی کے ساتھ کیا تھا۔ ارباب اختیار کو اپنے رویوں اور پالیسیوں کو تبدیل کرنا ہوگا ۔ لاہور کو ہی پاکستان سمجھنا چھوڑ دیں ، کراچی سے امتیازی سلوک ختم کردیں۔