طالبان نے جس عزم، ہمت، بہادری اور ایمانی قوت کے ساتھ قابض افواج کے خلاف اپنی جد و جہد جاری رکھی وہ قابل تحسین ہے ۔ کیونکہ یہی جذبہ ایمانی ہے جس نے عالمی سپر پاور کو ان پڑھ ، جدید ٹیکنالوجی سے نابلد ملائوں کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑیں ۔ ا فغان طالبان امریکہ امن معاہدہ طالبان کی فتح عظیم ہے یہ وہی ہیں جنکو کل تک امریکہ نے دہشت گرد قرار دے رکھا تھا اور جنہیں نائن الیون کا بہانہ بناکر تاریخ کی سب سے بڑی ناانصافی کا شکار کر دیا ۔ دوسری جانب بلا امتیاز دنیا کے تمام امیر وغریب قوموں کے تحفظ کے لئے قائم کئے جانے والے عالمی ادارے اقوام متحدہ نے بھی امریکہ سمیت دیگر اتحادی ممالک کے مفادات کی تکمیل کیلئے نہتے افغانستانی شہریوں کو خون میں نہلادیا اور فوجی چڑھائی کر دی ۔کارپنٹینگ بمباری کے ذریعے مفلوک الحال ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا د ی گئی۔ تاریخ کا انصا ف دیکھئیے کہ 19 سال کی خون ریزی کے بعد امریکہ کو یقین ہو گیا کہ وہ یہ جنگ نہیں جیت سکتا ۔ امریکی افواج کیلئے افغانستان قبرستان ثابت ہوا اور یہ جنگ اس کے گلے کی ہڈی بن کر رہ گئی تھی چنانچہ اسے ایک بڑ فوجی نقصان برداشت کرنا پڑا ۔اور اسی ناقابل تلافی خسارے نے عالمی عسکری طاقت کو افغان سرزمین سے بھاگنے پر مجبور کر دیا۔
بلاشبہ مذکورہ معاہدہ اسلام کا ایک معجزہ اور جہاد کی حقانیت کی واضح دلیل ہے۔ معاہدے کی صورت میں جو چیز بہت واضح طور پر سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ امریکا اور عالمی طاقتوں نے بعد از خرابی بسیار سہی، یہ تسلیم کرلیا ہے کہ افغان مسئلے کا کوئی عسکری حل نہیں ہے اور یہ کہ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ افغانوں نے خود کرنا ہے۔ اس لحاظ سے یہ افغانستان کے عوام کی بالعموم اور افغان قوم کی ناقابل تسخیر قوت مزاحمت کی شاندار علامت طالبان کی بالخصوص بہت بڑی کامیابی بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے ایک طرح کی فتح مبین ہے۔ آج ایک بار پھر قرآنِ مجید کی آیت۔ (کتنی ہی قلیل جماعتوں نے کثیر لشکروں کو اللہ کے حکم سے شکست دی) کی عملی تفسیر دنیا کے سامنے آئی ہے اور مادہ پرستی اور الحاد کے اس دور میں اللہ تعالی نے دنیا کو بتادیا ہے کہ آج کے دور میں بھی اگر اہل حق ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ کے علم کو بلند کریں اور اللہ کی ذات پر کامل بھروسا رکھ کر باہمی اتحاد کی قوت سے آگے بڑھیں تو اللہ کی مدد آج بھی ان کے ہمرکاب ہوسکتی ہے اور ماضی کی طرح آج کی سپر طاقتیں بھی ان کے سامنے ڈھیر ہوسکتی ہیں۔
قبل ازیں تو افغان قوم نے ماضی کی بڑی طاقت سوویت یونین کواپنی سرزمین پر عبرت ناک شکست دی تھی تا ہم نائن الیون کے بعد جس انداز سے چھتیس نیٹو ممالک اور ان کے دس دیگر اتحادی ممالک نے مل کر دنیا کی جدیدترین عسکری ٹیکنالوجی، انتہائی تباہ کن ہتھیاروں اور بے پناہ وسائل کے ساتھ پہلے سے تباہ حال افغانستان پر یلغار کی اور جس انداز میں خطے کے بیشتر ممالک نے ان کا ساتھ دیا، اس کو دیکھتے ہوئے بہت سے مبصرین کا یہ خیال تھا کہ طالبان بہت جلد تاریخ کا حصہ بن جائیں گے اور افغانستان میں عالمی قوتوں کی مرضی کا ہی راج قائم ہوگا، مگر دنیا نے یہ محیرالعقول تماشا دیکھا کہ افغان طالبان نے پوری جرات، پامردی، استقلال اور استقامت کے ساتھ اپنے سے ہزاروں گنا زائد قوت کے حامل دشمن کا مقابلہ کرنا شروع کیا اور بہت تھوڑے ہی عرصے میں دنیا پر اپنی مزاحمت کی دھاک بٹھادی۔دوحہ میں ہونے والے افغان امن معاہدے کی ابھی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ دو بڑے دھچکوں کی وجہ سے طے پانے والے اس وعدے کی پاسداری سے انکار کر دیا جس کے تحت کابل انتظامیہ کو 10مارچ تک 5ہزار طالبان قیدیوں اور ان کے بدلے میں طالبان نے ایک ہزار افغان فوجیوں کو رہا کرنا تھا۔ افغان صدر کا کہنا ہے کہ طالبان قیدیوں کی رہائی کابل انتظامیہ کی صوابدید ہے۔
امریکہ کو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار ہے۔ امریکی وزیر خارجہ پومپیو نے کہا کہ قیدیوں کی رہائی کوئی پیشگی شرط نہیں امن معاہدے پر کوئی پیش رفت نہ ہوئی تو امریکی فوج کا افغانستان سے انخلا روک دیا جائے گا اور صدر ٹرمپ نے تو یہ بھی کہا کہ ایسی صورت میں امریکہ اپنی اتنی بڑی فوج افغانستان بھیجے گا جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ معاہدے کی کامیابی کے لئے ان عناصر پر کڑی نظر رکھنا ہو گی جو اسے سبوتاژ کر سکتے ہیں۔۔ دنیا جانتی ہے کہ امریکہ طالبان معاہدہ سے بھارت خوش نہیں کیونکہ اس میں اسے کوئی کردار نہیں دیا گیا تھا۔ معاہدے کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے جو پاکستان مخالف بیان بازی کی، اس سے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ مودی نے اشرف غنی کو کیا پیغام بھیجا ہوگا اور شاہ محمود نے جن عناصر سے خبردار رہنے کا مشورہ دیا تھا وہ کون تھے۔
امریکہ 19سال سے ا فغانستان میں جنگ لڑ رہا ہے اور 2کھرب ڈالر سے زیادہ ضائع کرنے کے علاوہ کثیر تعداد میں اپنے فوجی بھی مروا چکا ہے۔چار صفحات پر مشتمل یہ معاہدہ نائن الیون حملوں کے بعد افغانستان میں جاری جنگ کے بعد سب سے بڑی پیشرفت ہے۔حالانکہ پینٹا گون نہیں چاہتا تھا کہ امریکی فوج کا افغانستان سے انخلاء ہو لیکن ٹرمپ نے ثابت کردیا کہ وہ اسٹبلیشمنٹ کا آدمی نہیں اس نے الیکشن کے دوران اپنی عوام سے کیا گیا وعدہ پورا کردیا ۔ موجودہ حالات و واقعات سے واضح ہو جاتا ہے کہ واشنگٹن کو اپنے مفادات مقدم ہیں اور ان کیلئے طالبان سے بھی مذاکرات کرلئے گئے وہی انس حقانی ہیں اور ملا بردران ہیں جن کے دستخطوں سے یہ معاہدہ طے پایا ۔لیکن ہم نے کشمیر کے حل کا ایک سنہری موقع گنوا دیا ۔
وقت کا تقاضا تو یہی تھا کہ طابان کے ساتھ مذاکرات کو کشمیر کے مسئلے کے ساتھ مشروط کر دیا جاتا۔فی الوقت ہمیں بھارت کے سازشی کردار کو بھی ہمیں مد نظر رکھنا ہو گاکیونکہ ہندوستان نے افغانستان میں ساڑھے 4 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کررکھی ہے۔ اشرف غنی کے مقابلے میں امر اللہ صالح سیاسی لیڈر کو سامنے لانے کا اصل مقصد یہی تھا کہ افغانی سر زمین پر امن کا قیام ممکن نہ ہو سکے ۔ جہاں تک طالبان کا تعلق ہے90 فیصد علاقہ طالبان کے تصرف میں ہے۔ افغانی عوام بھی چاہتے ہیں کہ یہاں امن و امان کا دور دورہ ہو اور یہ صرف طالبان کے آنے سے ہی ممکن ہے۔ مگر اسلام دشمن قوتیں کسی طور بھی نہیں چاہے گیں طاغوتی طاقتیں افغانستان کو ایسے ہی غیر مستحکم کرنے کیلئے مسلسل سرگرم ہیں ۔