تحریر : غلام حسین محب دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکہ نے پہلے ایٹمی حملے میں جاپان کو نشانہ بنایاتو جنگ کی شکل ہی بدل گئی۔امریکہ نے اپنے آپ کو سپرپاور منوانے اور عالمی برادری میں ایک الگ پہچان بنانے پرزور دیااور باقی عرصے میں اسی پر کام کرتے ہوئے دنیا بھر میں مداخلت کاسلسلہ جاری رکھا۔لیکن ویتنام میں بری طرح شکست سے دوچار ہونے کے بعد اپنی حکمت عملی میں واضح تبدیلی کی۔اس سے پہلے امریکہ براہ راست مداخلت کرکے اپنی فوج کو جنگ کا حصہ بناتاجس سے امریکہ کو بھاری جانی اور مالی نقصان کاسامنا کرنا پڑتااور ساتھ ہی عالمی سطح پر بدنامی اور رسوائی بھی ہوتی۔ویتنام کے بعد لیبیااور بعض افریقی ممالک میں اس طرح کے تجربے کیے جاچکے تھے جس سے تباہی و بربادی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔البتہ جنگی حکمت عملی میںتبدیلی کے بعدامریکہ پہلے متعلقہ ملک میںزمینی حقائق کے مطابق سروے کرکے معلومات کی بنا پر وہاں ہی کے لوگوں اور گروپوں کو ساتھ ملاتا اور اندر ہی اندر کام شروع کیا جاتاجبکہ فوجی مداخلت سے حتی الوسع گریز کیا جاتا۔اس طریقے سے بظاہر امریکہ اور اتحادیوں کو کامیابی ملتی مگر حقیقت یہ ہے کہ کسی ملک میں امریکی مداخلت یا حملے کے بعد جنگ کبھی ختم ہی نہیں ہوئی جن کی مثالیں،عراق،یمن،لیبیا اور افغانستان کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔
پچھلے دنوں افغانستان کے ننگرہارصوبے میں داعش کے ٹھکانوں پر امریکہ نے سب سے بڑابمMOAB، گرایا تو عام لوگوں کو یہ سمجھنے میں دیرنہ لگی کہ امریکہ اس طرح کی طاقت کا مظاہرہ کرکے اگر اپنی دھاک بٹھانا چاہتا ہے تو ساتھ ہی وہ افغانستان میں اپنی ناکامیاں بھی چھپانا چاہتاہے۔امریکہ نے 2001حملوں کی ذمہ داری القاعدہ پر ڈالتے ہوئے افغانستان میں قائم طالبان حکومت کو للکارا،اور باقاعدہ حملہ کرکے میزائل کا نشانہ بنایا۔اور پھر افغانستان میں فوج اتار کر جنگ کا آغاز کیاجس سے طالبان اقتدار کا زوال شروع ہوا۔شروع شروع میں امریکہ نے طالبان کی طرف سے ہر قسم مذاکرات کی پیشکش کو ٹھکراکر انتہائی غرور اور گھمنڈ کا مظاہرہ کیالیکن جوں جوں افغانستان میں امریکہ کی جڑیں مضبوط ہوتی گئیں طالبان اور امریکہ مخالف قوتیں بھی مزید مستحکم ہوتی گئیں۔
یہاں تک کہ آج امریکہ افغانستان میں بارہ سال سے زائد کا عرصہ گزار کر بھی افغان حکومت اور امریکہ مخالف گروپوں کا خاتمہ نہیں کر سکا ہے ۔دوسری طرف پاکستان کو ڈومور کہہ کر شدت پسند تنظیموں کے خلاف موثر کارروائی پر زور دیتا رہاہے، حالانکہ افغانستان میں نیٹو کے اشتراک سے بھر پور طاقت کا ستعمال کیا جاتا رہاہے بلکہ نیٹو کے نام پر یورپ،اور اسرائیل بھی تمام حربے آزماچکے ہیں لیکن افغانستان میں آج طالبان اور داعش وغیرہ مزید طاقتور ہوکر سامنے آئے ہیں۔تو سوال اٹھتا ہے کہ امریکہ نے اتنے سال افغانستان میں گزار کربھاری جانی و مالی نقصانات اٹھائے مگر جس مقصد کے لیے اس نے حملہ کیا تھا کیا وہ مقصد حاصل کرسکا ہے ؟ افغانستان میں امریکی مداخلت کے بعد اب تک لاکھوں افغان لقمۂ اجل بن چکے ہیں افغانستان میں کسی صوبے پرحکومتی کنٹرول نہیں ہے بلکہ دارالحکومت کابل میں بھی آئے روز بدترین واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔ افغانستان کے مشرقی صوبوں کُنڑ اور ننگرہار میں داعش اور طالبان سرگرم عمل ہیں، ہلمند اور قندہار میں طالبان حکومت کے خلاف برسر پیکار ہیں جبکہ شمالی افغانستان کندوز،مزاراور بلخ میں اس وقت حکومت کو سب سے زیادہ مزاحمت کا سامنا ہے جہاں گزشتہ دنوں ایک فوجی چھاونی پر حملہ کرکے 160،فوجیوں کو شہید کیا گیا جب وہ نماز جمعہ پڑھ رہے تھے۔تو اتنے بڑے واقعات امریکی اور اتحادی افواج کی موجودگی میں ہورہے ہیں جو افغانستان میں پندرہ سال گزار چکے ہیں ،کیا یہ امریکہ کی مکمل ناکامی نہیں۔
اب تک کی عالمی جنگوں میں کوئی ایسی مثال نہیں جہاں امریکہ نے مداخلت کرکے امن قائم کیا ہو، بلکہ وہاں ایک نہ ختم ہونے والی جنگ چھڑ جاتی ہے جس کے حل کا کسی کے پاس طریقہ نہیں ہوتا۔تو اس قسم کی امریکی پالیسی سے کیا پیغام ملتا ہے ؟ آیا عالمی امن کو خراب کرنا،ممالک کو آپس میں لڑانااورعدم استحکام سے دوچار کرنا ہی امریکی پالیسی ہے۔اگر نہیں تو پھر کیا ہے ؟ عراق میں 1991ء کے بعد سے امن نام کی کوئی چیز نظر نہیں آرہی اورقتل و غارت گری کاسلسلہ ابھی جاری ہے۔
نائن الیون کے بعد تو امریکہ نے باقاعدہ جنگ کا آغاز کیا اور افغانستان میں اپنی فوجیں اتار کر نیٹو کو بھی گھسیٹ لایا تاکہ بھرپورطاقت کے ساتھ امریکی مخالفت کو کچلا جاسکے مگر کیا آج بارہ سال گزرنے کے بعد وہ اپنے مخالفین کو ختم کرسکا ہے بلکہ حقیقت میں مخالفین کو بڑھانے میں مدد ملی ہے۔تو ایسے میں سپر پاور کی زعم میں مبتلا امریکہ کیا ناکامی سے دوچار نہیں ؟ بلکہ دنیا بھر میں ناکامی سے دوچار ہے۔عراق میں گھسنے اور حملہ کرنے کا بہانہ کیمیاوی ہتھیار بنایا گیا مگر آج تک نہ وہ کیمیاوی ہتھیار ہاتھ آئے اور نہ عراق میں جنگ ختم ہوئی جبکہ خودامریکی اتحادی برطانیہ نے اعتراف کیا کہ وہاں کوئی کیمیاوی ہتھیار نہیں تھے ۔اُلٹا وہاں افراتفری اور بے چینی کو ہوا دی گئی۔علاوہ ازیں عراق میں ISIS، یعنی داعش کا وجود عمل میں آیاجو خود امریکہ کے لیے آج دردسر بناہوا ہے اور جو موصل میں عراقی عوام کو بطورڈھال استعمال کرتے ہوئے لاکھوں عام شہریوں کے قتل عام کاسبب بناہوا ہے۔گزشتہ چند سالوں میں مشرق وسطیٰ کے ملکوں میں جو انقلابات آئے جن سے مصر،لیبیا، تیونس،یمن،اور شام میں عوامی تحریکیں چلیں اور وہاں اقتدارمیں تبدیلیاں لائی گئیں مگر شام میں ایک شخص اپنے بچاؤکے لیے لاکھوں عام لوگوں کو شہید کر چکا ہے مگر نہ تو امریکی امن پالیسی حرکت میں آئی اور نہ یو این کی جانب سے کوئی مناسب رد عمل سامنے آیا ہے۔
دراصل امریکہ دنیا بھر کوباور کرانے کی کوشش کرتا رہا ہے کہ جہاں جہاں غیر مستحکم اور غیر جمہوری حکومتیں قائم ہیں اُن کو راہ راست پر لایا جائے گااور ساتھ ہی ان ممالک کو سبق سکھایا جائے گا جودہشت گردی کو فروغ یا سپورٹ کررہے ہیں لیکن یہ محض دھمکیاں اور دعوے ہیں کیونکہ آج تک امریکہ نے کسی ظالم حکومت کے خلاف کارروائی نہیں کی۔امریکہ نے اسرائیل،برما اوربھارت کے خلاف آج تک کوئی بات تک نہیں کی اُن کے خلاف اقدامات تو دور کی بات ہے۔ہاں اُس نے افغانستان اور عراق کو خوب سبق سکھایا ہے جہاں ایک طویل عرصے سے قتل و غارت گری جاری ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ جہاں بھی گیاوہاں کی قومیں اور حکومتیں کبھی دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑی نہ ہوسکی ہیں افریقی ممالک اس کی واجح مثالیں ہیں جہاں موجود تمام ممالک آپس میں مخالف اورمعاشی و سیاسی طور پر عدم استحکام کا شکار ہیں جبکہ اکثر افریقی ممالک قحط سالی اور خانہ جنگی کا شکار رہے ہیں۔روس نے جب افغانستان میں گھس کر قبضہ کیا تو امریکہ نے یورپ سمیت پاکستان کو بھی ساتھ ملایاتا کہ روسی جارحیت کا راستہ روکا جاسکے لیکن روس کی شکست کے بعد یہ غلطی خود کر بیٹھاجس کی سزا وہ آج تک بھگت رہا ہے۔مجموعی طور پر دیکھا جائے تو دنیا بھر میں امریکی پالیسیاں ناکامی سے دوچارہوتی نظر آرہی ہیں۔البتہ نئے صدر ٹرمپ نے خارجہ پالیسی میں تبدیلی کا عندیہ دیا ہے کہ آج تک امریکہ نے جہاں جہاں فوجیں بھیج کر مداخلت کی ہے شدید جانی ومالی نقصان اٹھایا ہے جو امریکی معیشت کے لیے خطرناک ہے۔اب اگر نئی پالیسی کے تحت امریکہ عالمی برادری میں اپنا کردار محدود کرے اور دوسروں کے بجائے اپنی حالت زار پر توجہ دے تو یہ امریکہ کے علاوہ دنیا بھر کے لیے بہتر ہوگا جس کا ظہار ٹرمپ نے اپنے الیکشن کمپئین میں بھی کیا تھا۔۔۔۔