پاکستان میں جمعرات کو 51 نئے مریض سامنے آنے بعد ملک میں کورونا سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد 2291 ہوگئی ہے جبکہ 32 افراد اس وباء کے نتیجے میں ہلاک ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے خبردار کیا ہے کہ اگر عوام نے احتیاط نہ کی تو متاثرین کی تعداد 50 ہزار سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔ملک کے چاروں صوبوں کے علاوہ دارالحکومت اسلام آباد، گلگت بلتستان اورآزاد کشمیر میں بھی مکمل یا جزوی لاک ڈاؤن ہے جسے اب 14 اپریل تک بڑھا دیا گیا ہے جبکہ ملک بھر میں فوج بھی تعینات ہے۔
حکومت پاکستان نے تین اپریل سے ملک میں بین الاقوامی فضائی آپریشن کی جزوی بحالی کا اعلان کیا ہے تاہم اندرونِ ملک پروازیں 11 اپریل تک معطل رہیں گی۔وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے کورونا متاثرین امدادی پیکج کا آغاز یکم اپریل سے کر دیا ہے۔ جس کے تحت پنجاب کے 25 لاکھ ضرورت مند خاندانوں کو چار ہزار روپے ماہانہ کی مالی امداد دی جائے گی۔ذرائع ابلاغ کے نمائندگان سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے بتایا کہ اس امداد کے لیے کورونا کے خصوصی بجٹ سے دس ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔اس سے قبل بیشتر حلقوں کی جانب سے یہ مخالفت سامنے آئی تھی کہ پاکستان میں کورونا وائرس کے پھیلاو کو روکنے کے لیے ابھی تک وفاق کی جانب سے ملک بھر میں مکمل لاک ڈاون کیوں نہیں کیا گیا ہے۔ جس پر وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی جانب سے بار بار یہی وضاحت دی جارہی ہے کہ ‘مجھے ڈر ہے کہ پاکستان کا غریب اور دہاڑی دار طبقہ کورونا وائرس سے نہیں بلکہ بھوک سے مر جائے گا۔پاکستان میں تقریباً تیس فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ جبکہ ماہرین کی جانب سے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ کورونا وائرس کے باعث پاکستان کی معیشت اور عوام بری طر ح متاثر ہو سکتے ہیں۔
کو رونا وائرس جیسی مہلک وباء جہاں انسانی زندگیوں کو تیزی سے نگل رہی ہے وہیں معاشی طور پر بھی تمام ممالک کو مفلوج کرنے میں پیش پیش ہے۔آج ترقی یافتہ ممالک بھی اس وباء کے سامنے معاشی طور پر بوکھلاہٹ کا شکار دکھائی دیتے ہیں وہاں پاکستان جیسے ترقی پذیر غریب ملک جو پہلے ہی معاشی پستی کا شکار ہے ،کو رونا وائرس جیسی مہلک وباء نے اسے بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔اس وقت تمام دنیا ایمرجنسی کی کیفیت سے دوچار ہے۔ ایک خبررساں ایجنسی کی تازہ رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں 9 لاکھ سے زائد افراد ا س وباء کا شکار ہو چکے ہیں خوف ہراس اور لاک ڈاؤن سے تمام معاشی سرگرمیاں معطل ہو کر رہ گئیں ہیں۔پاکستان جہاں کروڑوں افراد پہلے ہی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں آج اس وباء نے ان کو سب سے زیادہ مفلوک الحال زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا ہے۔ طویل لاک ڈاؤن کی وجہ سے غریب دیہاتی دار طبقہ بیروزگار ہو کر گھروں میں اسیر ہو کر رہ گیا ہے ایسے مخدوش حالات میں کھانے پینے کی اشیاء تک ختم ہونے سے شدید متاثر ہے۔
حکومت نے غریب طبقہ کو ریلیف دینے کے لیے اربوں روپے کے امدادی پیکج کا اعلان کیا ہے تاکہ ان کی زندگیوں میں کچھ آسانیاں لائی جا سکیں۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں ہر دور حکومت میں جب بھی کوئی آفت نازل ہوئی وہ چاہے زلزلے کی صورت میں ہو یا پھر سیلاب کی صورت ،ان مواقع پر ہمیشہ امدادی سرگرمیوں میں کوتاہیوں کے ساتھ ساتھ مالی بے ضابطگیوں کی وہ داستان سامنے آئی ہیں کہ جنہیں دیکھ کر انسانیت شرما جاتی ہے بحثیت قوم ہمارا یہ المیہ رہا ہے کہ ہم نے مفاد عامہ کی بجائے ذاتی مفادات کو ہی اہمیت دی۔ایسے میں موجودہ حکومت پر اس وقت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ آنکھوں کو کھلا رکھے کیونکہ موجودہ حکومت آئی ہی اس نعرہ کے ساتھ ہے کہ وہ ملک سے کرپشن کو ختم کرے گی۔
اب وقت ہے کہ حکومت اپنے منشور کو عملی جامہ پہنانے اور ریلیف فنڈ میں کرپشن جیسی لعنت کے تمام دروازے بند کر نے کیلئے خصوصی اقدامات اٹھائے تاکہ امدادی سرگرمیوں پر کوئی اعتراض نہ ہو سکے ورنہ ایسے مواقع پر کچھ ایسی قوتیں سرگرم عمل ہو جاتی ہیں جو حکومت کی بدنامی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں۔ان سنگین حالات میں حکومت نے اگر بروقت مثبت اقدامات اٹھائے تو بہتر رزلٹ سامنے آ سکتے ہیں۔گو کہ ابھی بھی کچھ سیاسی حلقوں کی طرف سے امدادی سرگرمیوں کے حوالے سے ٹائیگر ز فورس بنانے پر اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں ریلیف فنڈ کے حوالے سے درست اعدادوشمار سے ہی مستحق افراد کا تعین کیا جاسکتا ہے اس کے لیے اس ایشو پر بھر پور توجہ کی ضرورت ہے۔موجودہ حالات میں سفید پوش طبقہ کا خصوصی خیال رکھا جانا چاہیے جو اپنا بھرم مشکل سے قائم رکھے ہوئے ہے اگر حکومت اس امتحان میں سرخرو ہو گئی تو اس میں ہی اس کی سیاسی بقا ہو گی بصورت دیگر حکومت کے لیے اس صورتحال کو کنٹرول کرنا مشکل ہو گا۔