امدادی رقوم اور بے حس حکمران

Pakistan

Pakistan

اسلامی جمہوریہ پاکستان اس وقت انتہائی مخدوش صورتحال سے دوچار ہے۔ ایک طرف خودکشیوں کے بڑھتے ہوئے واقعات ہیں۔ تو دوسری طرف قدرتی آفتوں سے انسانی جانوں کی تباہی کا منظر ہے۔ کہیں حکومت کی ناقص منصوبہ بندی کے نتیجہ میں عوام پس رہی ہے تو کہیں ٹریفک کے آئے روز ہونے والے حادثات ہیں۔ کہیں احتجاج کی کالیں ہیں تو کہیں انسانوں کی آبادی میں معصوم جانوں کو بھوک اور افلاس کے خوف سے قتل کر دینے والے روح کو دہلادینے والے واقعات ہیں۔اور پھر کہیں شریعت کے نام پر غریب عوام کو دھماکوں میں اپنی جانوں کے ضیاع کا بھی سامنا ہے۔

یہ صاحب حیثیت لوگوں کی عجیب منطق ہے کہ عوام کو کہیں جمہوریت کے نام پر لوٹا جا رہا ہے تو کہیں مذہب کی آڑ لے کر شریعت کے نام پر گلے کاٹے جارہیے ہیں۔ اوربچاری عوام کو ساتھ ہی اس بات کا دلاسا دیا جا رہا ہے گھبراو اور ڈرو نہیں یہ سب تو عوام کی فلاح بہبود کے منصوبے ہیں اور اسی کے تحت یہ سب کاروائی کی جارہی ہے آج عوام نے ہی قربانی دینی ہے۔ عوام قربانی دے گی تو ملک میں امن اور خوشحالی آئے گی اور سکون کی فضا قائم ہوگی۔ یہ بات عقل اور سمجھ سے بالاتر ہے کہ امن و سکون اور خوشحالی کے لئے پہلے عوام کا تہ تیغ کیا جانا ضروری ہے۔ اگران کے خون کی بللی نہیں چڑھے گی تو لہو کیسے رنگ لائے گا۔

ادھر شاید تھر کے غریب لوگوں کے مقدر میں بھی بھوک اور افلاس لکھ دیا گیا ہے۔ یہ بھی ایک عجیب منطق ہے کہ سندھ کے صحراوں سے اٹھنے والا روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ آج ان سے روٹی کے نوالے تن کا کپڑا اور مکان کا سہارا تک تو چھین چکا ہے۔

کاش عوام کو اس بات کا ادراک ہوجائے کہ جو بھی نعرہ امن کا لگے گا تو جنگ ضرور ہوگی۔ افلاس کو مٹانے کا نعرہ لگے کا توخوراک کی کمی سے ہونے والی موت ضرور رقص کرے گی۔ خوشحالی کا نعرہ لگے گا تو بدحالی آئے گی اور شریعت کو بنیاد بنا کر امن کی کوشش ہوگی تو وہاں لا قانونیت مارا ماری اور موتا موتی کا راج ہوگا۔ جس دن عوام یہ سمجھ گئی اس دن غاصب جابر مطلبی لالچی اور بے حس حکمرانوں اور عوام پر ظلم ڈھانے والوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔

اس خوفناک صورتحال کی جو منظر کشی کی گئی ہے اور جو تصویر اوپر کھینچی ہے اس میں کسی بھی طرح کی مبالغہ آرائی نہیں پائی جاتی۔ زرا ایک نظر پورے ملک کی مجموعی صورتحال پر ڈال لیں ۔ کس کس نے اپنے حق کے لئے احتجاج نہیں کیا۔ کون سڑکوں پر نہیں آیا قوم کے مسیحا تک تو سراپا احتجاج بن گئے۔ اور اب لاہور میں نرسیں بھی سراپا احتجاج ہیں۔ نجانے حکومت کب تک بے حسی کا شکار رہے گی اور اپنے بیرونی دوروں کو ہی ملک کی سلامتی خوشحالی تصور کرتی رہے گی ۔کیا کسی نے اندازہ لگایا ہے کہ لاتعداد کئے گئے سرکاری خرچ پر ان دوروںسے عوام کو کتنا فائدہ ہوا ہے۔ ملک میں کتنی خوشحالی آئی ہے اور ملک کتنا پر امن ہوا ہے ۔ ا ن دوروں سے تو شاید حکمرانوں کی بیگمات کی شاپنگ ہی مکمل نہ ہوئی ہوگی۔

پاکستان میں آنے والی ہر قدرتی آفت اور مشکلات کی گھڑی میں امدادی رقوم کی اندرون اوربیرون ملک سے آمد کا سلسلہ فوری طور پر شروع ہوجایا کرتا تھا۔ مگر ابھی تک بیرون ممالک سے تھر کے لئے کوئی امدادی پیکیج کا اعلان نہیں کیا گیا۔ دنیا کے امیر ترین اسلامی ملک بھی خاموش ہیں تو غیر اسلامی ممالک بھی چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ غالبا یہ سب جان گئے ہیں کہ ان امدادی رقوم کی تقسیم اور ترسیل شفاف طریقے سے نہیں کی جاتی۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے دماغ میں بھی یہی چل رہا ہو کہ جب متاثرین تک امداد ہی نہیں پہنچے گی تو امداد دینے کا کیا فائدہ۔

Thar

Thar

تھر کی صورتحال انتہائی مخدوش ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ فورا امیرجنسی نافظ کر کے ہنگامی بنیادوں پر اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کام شروع کر دیا جاتا۔ افسوس کے نہ صرف امدادی کام سست روی کا شکار ہوا جس سے انتہائی قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا اور دوسری طرف امدادی رقوم کی تقسیم بھی شفاف طریقے سے نہ ہوسکی ۔ 50لا کھ کی خطیر رقم ہسپتال کو دی گئی جس میں سے صرف پانچ لاکھ کی رقم خرچ کی گئی باقی رقم کا کچھ پتہ نہیں چلا کہ زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔

ستم ظریفی تو یہ ہے کہ تھر کی بگڑتی صورتحال کے ذمہ دار افسروں کوہٹانے کا فیصلہ ہوا تو ان افسروں کی ہٹ دھرمی دکھیئے کہ بجائے شرمندہ ہوں یا معافی مانگیں اپنی کرسی بچانے کے لئے اب تبادلے کے چکروں میں ہیں۔ اس سے زیادہ بے حسی ان افسروں کی اور کیا ہوگی ۔؟؟ تھر میں ہسپتال ضرور ہے مگر پورے ہسپتال میں صرف ایک ڈاکٹر ہے ۔ اور ضروری سہولتوں سے بھی مبرا ہے۔

کیا تھر پاکستان کا حصہ نہیں ہے ہمارے وزیر خزانہ اپنا پورا زور روپیہ کی قدر کو بڑھانے پر لگے ہوئے ہیں۔ اور لگتا یہی ہے کہ اسی کو اپنی زندگی کا مقصد اولین بنا کر بیٹھ گئے ہیں اور کرکٹ میچ کی طرح روزانہ اس کی رننگ کمنڑی سنتے ہیں۔ مگر شاید ان کی نظر میں تھر کے معصوم اور نازک پھولوں کے جانوں کے لاک ہوجانے کی تعداد نہیں بتائی جارہی تبھی تو ان کا میچ شیخ رشید سے جاری ہے کہ کب ڈالر 98 پر آتا ہے اور کب شیخ رشید اپنے استعفی کا زکر خیر کرتے ہیں ۔اور پھر وہی سیاسی بیانات اور ٹاک شو میں ان کی آمد کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ اور ہر ٹی وی چینل پر شیخ صاحب کے بیانات جاری ہوں گے۔

ادھر طالبان جو اپنی شریعت کے قیام کے چکر میں ہیں عارضی جنگ بندی کے بعد کی حکمت عملی پر سوچ و بچار کر رہے ہیں ۔شاید ان کے علم میں نہیں کہ اسلامی شریعت کا پہلا اصول عوام کی فلاح و بہبود ہے ۔ اگر اوریا مقبول جان۔ انصار عباسی اور ہمنوا شام مصر اور فلسطین کی صورتحال اور ان ممالک کی امداد کرنے کے چکر سے باہر نکل کر سوچیں تو آج ان ہی کے ملک پاکستان کو سب سے زیادہ امداد کی ضرورت ہے۔ اور خاص طور سے تھر کے غریب لوگوں تک ہنگامی بنیادوں پر امداد درکار ہے۔ کاش کہ ایسا ہو جائے کہ طالبان ہتھیار پھینک کر اپنا قیمتی اسلحہ بیچ کر تھر کے غریب لوگوں کی امداد میں شانہ بشانہ حصہ لیں۔ اور فلاحی کاموں میں حکومت اور عوام کی مدد کریں۔

افسوس تو اس بات کا ہے کہ امداد پر بھی سیاست کی جارہی ہے۔ آخر کون ہے غریب عوام کا پرسان حال ۔؟کب تک تھر کے سینوں پر سیاست کے نام پر شطرنج کی بساط بچھائی جاتی رہے گی۔

Maryam Samaar

Maryam Samaar

تحریر : مریم ثمر