اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) سپریم کورٹ نے حکومت کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں 6 ماہ مشروط توسیع کی اجازت دیدی۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل انور منصور اور بیرسٹر فروغ نسیم عدالت میں پیش ہوگئے۔
چیف جسٹس نے جنرل کیانی کی توسیع اورجنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کی دستاویزات مانگ لیں اورریمارکس دیئے کہ ہم دیکھنا چاہتے ہیں ان دستاویزات میں کیا لکھا ہے، سوال یہ بھی ہے آپ نے کہا ہے جنرل کبھی ریٹائر نہیں ہوتے، سوال یہ بھی ہے اگرجنرل ریٹائر نہیں ہوتے تو پینشن بھی نہیں ہوتی، اس معاملے پر عدالت کی معاونت کرنا چاہتا ہوں، جائزہ لیں گے جنرل کیانی کی توسیع کن بنیادوں پرہوئی تھی، 15 منٹ تک جنرل کیانی کی توسیع کی دستاویزات پیش کردیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 243 کے تحت آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی کردی گئی ہے جس پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آج ہونے والی تعیناتی پہلے سے کیسے مختلف ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ نئی تعیناتی 243 (1) بی کے تحت کی گئی ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو ہمیں مطمئن کرنا ہوگا، اب ہونے والی تعیناتی درست کیسے ہے، سمری میں تو عدالتی کارروائی کا بھی ذکرکردیا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بوجھ خود اٹھائیں ہمارے کندھے کیوں استعمال کرتے ہیں، اپنا کام خود کریں، ہمیں درمیان میں کیوں لاتے ہیں، عدالت کا نام استعمال کیا گیا تاکہ ہم غلط بھی نہ کہہ سکیں، سمری میں سے عدالت کا نام نکالیں، آج سے تعیناتی 28 نومبر سے کردی گئی، آج تو جنرل باجوہ پہلے ہی آرمی چیف ہیں، جو عہدہ خالی ہی نہیں اس پر تعیناتی کیسے ہو سکتی ہے، لگتا ہے اس بار کافی سوچ بچار کی گئی ہے، عدالت کی ایڈوائس والا حصہ سمری سے نکالیں ، صدر اگر ہماری ایڈوائس مانگیں تو وہ الگ بات ہے۔ جسٹس منصور نے ریمارکس دیئے کہ 3 سال کی مدت کا ذکر تو قانون میں کہیں نہیں ہے۔
آرمی چیف کی تعیناتی قانون کے مطابق ہونی چاہیے، قانون میں تعیناتی کی مدت کہیں نہیں لکھی ہوئی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر مدت مقرر نہ کریں تو تاحکم ثانی آرمی چیف تعینات ہوگا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آرمی ایکٹ اور ریگولیشنز کی کتاب آپ نے سینے سے لگا کر رکھی ہے، آرمی رولز بھی کتاب پر لکھا ہے غیر متعلقہ بندہ نہ پڑھے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پہلے توسیع ہوتی رہی اور کسی نے جائزہ نہیں لیا، کوئی دیکھتا نہیں کہ کنٹونمنٹ میں کیا ہو رہا ہے، کس قانون کے تحت کوئی کام ہو رہا ہے، اب آئینی ادارہ اس مسئلے کا جائزہ لے رہا ہے، آئینی عہدے پر تعیناتی کا طریقہ کار واضح لکھا ہونا چاہیے۔ عدالت میں آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی کی سمری عدالت میں پیش کی گئی جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ سمری میں آرمی چیف کی تنخواہ کا ذکر ہے نہ مراعات کا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کل آرمی ایکٹ کا جائزہ لیا تو بھارتی اور سی آئی اے ایجنٹ کہا گیا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہماری بحث کا بھارت میں بہت فائدہ اٹھایا گیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں ففتھ جنریشن وار کا حصہ ٹھہرایا گیا، یہ ہماراحق ہے کہ سوال پوچھیں۔ جسٹس منصورنے کہا کہ اٹارنی جنرل نے بھی کل پہلی بار آرمی قوانین پڑھے ہونگے، آپ تجویز کریں آرمی قوانین کوکیسے درست کریں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مدت نوٹیفکیشن میں 3 سال لکھی گئی ہے، اگر زبردست جنرل مل گیا تو شاید مدت 30 سال لکھ دی جائے، ایک واضح نظام ہونا چاہیے جس کا سب کو علم ہو، 3 سال تعیناتی اب ایک مثال بن جائے گی، ہو سکتا ہے اگلے آرمی چیف کو حکومت ایک سال رکھنا چاہتی ہو۔
سابق آرمی چیف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کی توسیع اور جنرل (ر) راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ سے متعلق دستاویزات عدالت میں پیش کی گئیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کہیں نہیں لکھا کہ جنرل کیانی کو توسیع کس نے دی تھی، جس قانون کے تحت توسیع دی گئی اس کا بھی حوالہ دیں، اتنے اہم عہدے کے لیے تو ابہام ہونا ہی نہیں چاہیے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ سمری نوٹیفکیشن میں عدالت عظمی کا ذکر نہ کریں، سمری میں عدالت کو بھی بریکٹ میں ڈال دیا گیا تاہم عدالت عظمی کا سمری سے کوئی تعلق نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ان کا کام ہے ملکی دفاع پر توجہ دیں، یہ ان کے وقت کا ضیاع ہے کہ وہ آپ کی غلطیاں نکالیں، وہ خود رہنمائی کرنے پہنچ گئے، یہ سب تو باعث شرمندگی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ آپ تو کہتے ہیں حکومت نے کوئی غلطی نہیں کی جب کہ 6 ماہ میں قانون سازی نہ ہوئی تو کیا تقرری غیرقانونی ہوجائے گی، 6 ماہ کے اندر پارلیمنٹ سے قانون سازی کرلیں، حکومت وقفے کے دوران نوٹیفکیشن اور سمری میں درستگی کرے، شام کو مختصر فیصلہ جاری کریں گے۔ بعد ازاں عدالت نے سماعت دوپہر ایک بجے تک ملتوی کردی۔
وقفہ کے بعد عدالت نے ڈھائی گھنٹے تاخیر سے کیس کی سماعت شروع کی اور مختصر فیصلہ سنایا جس میں عدالت نے کہا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع چیلنج کی گئی، حکومت ایک سے دوسرا موقف اپناتی رہی، کبھی دوبارہ تعیناتی کبھی توسیع کا کہا جاتا رہا جب کہ حکومت نے آرٹیکل 342 اور ریگولیشن کی شق 255 پر انحصار کیا، آج عدالت میں نئی سمری اور نوٹیفکیشن پیش کیے گئے جس کے مطابق جنرل باجوہ کو آرمی چیف تعینات کیا گیا، تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملہ پارلیمنٹ پر چھوڑ رہے ہیں جب کہ آرمی چیف کو قانون سازی سے مشروط 6 ماہ کی توسیع دی گئی ہے۔
عدالت نے مختصر فیصلے میں کہا کہ آرمی چیف کی مدت تعیناتی کا قانون میں ذکر نہیں جب کہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ محدود یا معطل کرنے کا بھی کہیں ذکر نہیں، عدالت نے آرٹیکل 243 سے متعلق قوانین کا جائزہ لیا۔
عدالت کے فیصلے میں کہا گیا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ 6 ماہ تک بطور آرمی چیف اپنی خدمات جاری رکھیں گے جب کہ ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے 6 ماہ میں آرٹیکل 243 کی وسعت کا تعین کیا جائے، عدالت مناسب سمجھتی ہے کہ یہ معاملہ پارلیمنٹ پر چھوڑ دیا جائے، آرمی چیف کی سروس کی شرائط اور مدت کو قانون سازی کے ذریعے واضح کیا جائے، پارلیمنٹ آرٹیکل 243 کے دائرہ اختیار کو بھی واضح کرے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی موجودہ تقرری پارلیمنٹ کی قانون سازی سے مشروط ہوگی، قانون سازی کے لیے 6 ماہ کی مدت آج سے شروع ہو جائے گی، نئی قانون سازی آرمی چیف کی مدت اور قواعد و ضوابط کا تعین کرے گی۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ آج ملک کو عدم استحکام کا شکار دیکھنے والوں کے لیے مایوس کن دن ہے، اداروں میں تصادم نہیں ہوا بیرونی دشمن، اندرونی مافیاز کو خصوصی مایوسی ہوئی، اداروں کے تصادم سے ملک میں عدم استحکام لانے والوں کو شکست ہوئی۔
وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ 23 سال قبل ہماری پارٹی نے پہلی بار قانون کی بالا دستی اور آزاد عدلیہ کے لیے جدوجہد شروع کی، پی ٹی آئی 2007 میں عدلیہ کی آزادی کی تحریک میں صف اول میں تھی اور میں اس کے لیے جیل بھی گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا بھرپور احترام کرتا ہوں، ان کا شمار پاکستان کے عظیم ججوں میں ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کاحکم نامہ معطل کردیا تھا۔