تحریر : میر افسر امان سپریم کورٹ کا اکثریتی فیصلہ آگیا۔سپریم کورٹ کے تین محترم ججز نے فیصہ لکھا کہ سات دن کے اندر جے آئی بنائی جائے جو ساٹھ دن میں تحقیق کرے اور سپریم کورٹ کے سامنے رپورٹ پیش کرے کہ منی ٹریل کیسی ہوئی۔ جسٹس سعید کھوسہ صاحب نے کہا ہر ججز نے اپنی اپنی رائے دی۔جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی، ایف آئی اے، اسٹیٹ بنک وغیرہ کے نمائیدے شامل ہوں۔مولا بخش چانڈیو کے مطابق سندھی کی کہاوت ہے پگھڑی گہرگئی۔ کسی نے نہیں دیکھی۔ عزت بچ گئی۔ یہ کہاوت نواز شریف پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر فٹ نظر آتی ہے۔ن لیگ کے حضرات سپریم کورٹ کا فیصلہ سننے کے بعد سپریم کورٹ کے باہر فرما رہے ہیں کہ ہم جیت گئے ہیں۔ پنجاب اور کراچی میں نواز شریف کے حق میں بینر اور پوسٹر لگ گئے۔ ن لیگ والے کہتے ہیںکورٹ نے نواز شریف کو نااہل نہیں کیا یہ ہماری جیت ہے۔ نواز شریف کو سپریم کورٹ نے صادق و امین مان لیا ہے۔ جبکہ تحریک انصاف جماعت اسلامی اور عوامی مسلم لیگ نے سپریم کورٹ میں درخواست داہر کی تھیں کہ پارلیمنٹ اور دو دفعہ الیکٹرونک میڈیا پر نواز شریف کے بیانات کے تضاد کی وجہ سے یہ صادق اور امین نہیںرہے۔عدالت ان کے خلاف فیصلہ دے کر ناہل قرار دے۔ن لیگ کے سیاست دان فیصلہ سننے کے بعد کورٹ سے باہر نکل کر اپنے مطلب کی تشریع کر رہے ہیں۔ جبکہ کہ تین ججز نے بھی یہ نہیں کہا کہ نواز شریف صادق اور امین ہیں انہوں نے کہا کہ تحقیق کی جائے کہ منی ٹریل کیسے ہوئے۔ دبئی، قطر اور سعودی کیسے منی تریلہوئی اس کی تحقیق کی جائے۔
قطرے خط کو بھی کورٹ نے نہیں مانا اس افسانہ کہا گیا۔ جبکہ دو ججز نے اختلافی نوٹ لکھا اور کہا کہ نواز کے بیانات کے تضاد پر وہ صادق اور امین نہیں رہے ان کووزیر اعظم کے عہدے سے ہٹایا جائے۔تین ججز کا فیصلہ ہے کہ ان کو دو ماہ اور سات دن مزید موقعہ دیا جائے اور جے آئی ٹی تحقیق کرے کہ منی ٹریل کیسے ہوئی۔ فیصلے لگتا ہے کہ سپریم کورٹ نے نواز شریف کے وکلا کے پیش کردہ باتوں کو بلکل نہیں مانا اور قطرے شہزادے کے خط کو بھی اہمیت نہیں دی۔ عمران خان نے سپرہم کورٹ کے فیصلہ پر اپنے کارکنوں کو مبارک باد پیش کی۔ پریس کانفرنس میںکہا کہ دو ججز نے یہ کہا ہے کہ نواز شریف امین اور صادق نہیں رہے۔ انہوں نے جھوٹ بولاہے اس لئے قوم کی مطالبہ کرتی ہے کہ نواز شریف وزیر اعظم کے عہدے سے استعفیٰ دے اور جے آئی ٹی کے سامنے تلاشی دیں۔ تاکہ جے ٹی آئی صحیح طریقے سے تحقیق کر سکے۔نواز شریف نے اداروں کو تو خریدا ہوا۔
نواز شریف کی کیا عزت رہ گئی ہے کہ جیسے عزیر بلوچ سے ایک سرکاری ملازم پوچھ رہا ہے کہ تم نے کیا کیا جرم کیا ہے۔ اس طرح ملک کے وزیر اعظم اور اس کی فیملی سے کچھ سرکاری ملازم پوچھیں گے کہ بتلائیں کی یہ منی ٹریل کیسے ہوئی۔ ذرائع کہتے ہیں کیا ہی اچھا ہوتا کہ جب نواز شریف کی فیملی پر پاناما لیکس کے تحت الزام لگا تھا تو مغرب کے سیاست دانوں کی طرح استعفیٰ دیتے اور کہتے کہ تحقیق کر لیں۔ اگر تحقیق میں ان پر الزام ثابت نہ ہوتا تو پھر سے وزیر اعظم بن جاتے اور ان کی عزت میں اضافہ ہوتا۔ اس کے ساتھ ساتھ ذرائع یہ بھی کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے بھی یہی فیصلہ دینا تھا تو پہلے والے چیف جسٹس صاحب ہی فیصلہ سنا دیتے تو جو پاکستانی قوم دہشت گردی کا نشانہ بنی ہوئی ہے، مہنگائی کے عذاب میں پھنسی ہوئی ہے، بجلی کی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کے عذاب میں مبتلا رہی ہے ۔ سیاست دان ایک دوسرے کے خلاف توپوں کے دھانے کھولنے کے بجائے نواز حکومت عوام کے مسائل حل کرنے پر توجع دیتی۔ ہم بھی اپنے کالموں میں عدلیہ سے درخواست کرتے رہے تھے کہ سپریم کورٹ از خود نوٹس لے کر قوم کو پاناما لیکس کے عذاب سے نجات دلائے مگر ایسا نہیں ہو سکا اور قوم کا قیمتی وقت ضائع ہوا۔ خیر دیر آمنددرست آمند کے مطابق اب جے آئی ٹی کو مکمل تحفظ ملنا چاہیے۔پیپلز پارٹی کی قیادت نے بھی سپریم کورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں مطالبہ کیا ہے کہ نواز شریف کو استعفیٰ دے دینا چاہیے تاکہ کورٹ کے حکم کے مطابق جے ٹی آئی بنے اور شفاف تحقیق کر سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہماری شروع کی پالیسی کے مطابق اس فیصلہ سے جمہوریت کو نقصان پہنچا ہے۔
مفاہمت کے بادشاہ پہلے تو نواز شریف سے آنکھ مچولی کھیلتے رہے اور کورٹ پروسیجر میں شریک نہ ہو کر نواز شریف کے ہاتھ مضبوط کئے۔ جب پیپلز پارٹی کے لوگوں کو کرپشن کے الزام میں گرفتار کیا گیا تو اب نواز شریف کے خلاف بول رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی خواہش کے مطابق فیصلہ نہیں آیا تو پہلے کی طرح اب بھی سندھ کارڈ استعمال کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر راضی نہیں ہوئے کہ کورٹ نے ہمارے وزیراعظم تو گھر بھیج دیا اور پنجاب کے وزیر اعظم کو کرپشن کے الزام پر گھر نہیں بھیجا۔ ن لیگ کے ظفر علی شاہ صاحب کہتے ہیں کہ میں نے پہلے بھی نواز شریف صاحب کو اسٹپ ڈائون ہونے کا مشورہ دیا تھا اور اب بھی میں یہی مشورہ دیتا ہوں کہ عدالت کا فیصلہ آپ کے خلاف ہوا ہے آپ کو پارٹی کے لوگ دھوکا دے رہے ہیں۔کس بات کی مٹھائیاں بانٹی جا رہیں ہیں۔
صاحبو! اگر دیکھا جائے تو جماعت اسلامی کے موئقف کی تاہید ہوئی ہے۔جماعت اسلامی کہتی ہے کہ عدالت کے فیصلہ کے مطابق اس طرح صحیح تحقیق ہونی چاہیے۔ گو کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں نواز شریف کو استعفیٰ کا نہیں کہا مگر عوام کی خواہش ہے کہ نواز شریف استعفیٰ دے اورشفاف تحقیق ہو۔ عوام نے اور میڈیا نے پاناما لیکس قوم کی مدد کی ہے اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ مرحوم قاضی حسین احمد نے ١٩٩٦ء میں کرپشن کے خلاف دھرنا دیا تھا جس میں ہمارے پانچ کارکن شہید ہوئے تھے۔ اب بھی کرپشن کے خلاف ہمار ی جدوجہد اُسی تحریک کا حصہ ہے۔ ہم کہتے ہیںجوغاروں میںبیٹھے دہشت گردی کر رہے ہیںاور جو ایوانوں میںبیٹھے سیاست دان کرپشن کر رہے ہیں دونوں برابر ہیں۔ دونوں کے خلاف ہم نے جنگ لڑنی ہے۔ صاحبو! اگر عوام سیاست دانوں کو منتخب کر کے پارلیمنٹ میں بھجیں کہ وہ وہ عوام کے خزانوں کی حفاظت کریں۔ پھر وہ عوام کا خزانہ لوٹ لیں اس سے بڑا ظلم اور کیا ہو سکتا۔ کرپشن کا مستقل خاتمہ بہت ہی ضروری ہے۔ اس سے مہنگائی ختم ہو گی اور عوام سکھ کا سانس لیں گے۔
Mir Afsar Aman
تحریر : میر افسر امان کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان