تحریر : مسز جمشید خاکوانی عراقی سفیر نے انکشاف کیا ہے کہ عراق میں داعش کو شکست دینے میں پاکستانی انٹیلی جنس نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے ان کی طرف سے یہ آئی ایس آئی کو خراج تحسین ہے ایک طرف جہاں دوسرے ممالک ایجینسی کی کارکردگی کو سراہ رہے ہیں اور اس کو دنیا کی نمبر ون ایجنسی قرار دیتے ہیں وہاں ہمارے اپنے ملک کے سیاستداں اس کے وجود سے نالاں ہیں بلکہ وہ اس کا وجود ختم کرنے کے در پے ہیں کچھ عرصہ قبل ایک پاکستانی میڈیا گروپ نے اپنے صحافی پر حملے کا الزام بڑے دھوم دھڑکے سے آئی ایس آئی پر لگا دیا جلد ہی سب انڈین چینلز پر اس الزام کو ”نیوز بریکنگ ” کی حیثیت سے چلایا گیا۔
انہوں نے اس الزام کو بار بار دہرایا تاکہ عوام اس کو سچ سمجھنے لگیں اس پروپیگنڈے کے باعث پاکستانی عوام میں پچھلے ایک عشرے سے ایک بڑی غلط فہمی جنم لے چکی ہے کہ جاسوسی فلموں کی مانند اس انٹیلی جنس ادارے کے ماہرین بھی عجیب و غریب ہتھیاروں سے لیس ہوتے ہیں ،وہ بھیس بدلنے میں ماہر ہوتے ہیں اور پلک جھپکنے میں کسی کو بھی اغوا کر سکتے ہیں یا قتل کر دیتے ہیں ایک تو عوام کی یہ غلط فہمی دور ہونی چاہیے آئی ایس آئی کے افسران تو کجا ایک عام مخبر کو بھی یہ اختیار حاصل نہیں ہوتا کہ وہ بغیر وارنٹ دکھائے کسی کو گرفتار کر سکے آئی ایس آئی کی حیثیت جسم نہیں ایک دماغ کی ہے ان کا بنیادی کام یہ ہے کہ وہ اندرون اور بیرون ملک پاکستان کے دشمنوں پر نظر رکھیں ان کے خفیہ منصوبے آشکار کریں اور انہیں ناکام بنائیں یہ اعلی پیمانے پر ذہنی صلاحتیں رکھنے والا اور تحقیق و تفتیش کرنے والا ایلیٹ ادارہ ہے اس ادارے سے منسلک لوگوں کا یہ کام نہیں کہ وہ لوگوں پر گولیاں چلاتے پھریں بالغرض کسی کو گرفتار کرنا ہو یا کسی پہ حملہ آور ہونا ہو تو آئی ایس آئی یہ کام پولیس،رینجرز یا فوج کے ذریعے انجام دیتی ہے یہ ” خواہ مخواہ ” کسی کو نہیں اٹھاتے نہ ہی یہ ہر فن مولا ہوتے ہیں کہ حکومتی کرپشن اور امن و امان کے مسائل بھی حل کر دیں ہاں جو کام ان کے ذمے لگایا جائے بہ حسن وخوبی انجام دیتے ہیں۔
اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر ۔۔۔۔ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی تشکیل دی تو حکومتی حلقوں میں مٹھائیاں تقسیم کی گئیں غالباً ان کا خیال تھا کم ازکم سال چھ مہینے تو لگا ہی دیں گے اس عرصے میں یہ پہلے ریکارڈوں کی طرح ان کو بھی ٹھکانے لگا دیں گے لیکن پہلی بار ایسا ہوا کہ جے آئی ٹی نے دن رات تندہی سے کام کیا اور مطلوبہ ریکارڈ سپریم کورٹ کو پیش کر دیا ایم آئی اور ائی ایس آئی کا ایک نمائندہ اس میں شامل تھا لیکن یہ جے آئی ٹی سپریم کورٹ نے تشکیل دی جس کو رانا ثا اللہ نے جناتی قرار دیا ہے حالانکہ تحقیقاتی ٹیم کا کام بس اتنا ہوتا ہے کہ وہ دیانتداری اور غیر جانبداری سے بغیر کوئی دبائو قبول کیے بغیر اپنی رپورٹ متلقہ ادارے میں جمع کرا دے فیصلہ کرنا اس کا کام نہیں ہوتا آئی ایس آئی ایک مکمل تحقیقاتی ادارہ ہے انہیں ملک کی آنکھیں اور کان کہا جاتا ہے وہ متعلقہ اداروں کو باخبر کرتے ہیں کہ فلاں شخص، گروہ یا جماعت ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہے یا فلاں جگہ بم دھماکہ ہونے کا امکان ہے اب یہ متعلقہ وفاقی ،صوبائی سیکورٹی اداروں کی ذمہ داری ہے وہ اگر اس میں کوتاہی کریں تو اس کا ذمہ دار آئی ایس آئی کو نہیں ٹھیرایا جا سکتا جو سیاچن کے برف پوش پہاڑوں سے لے کر سندھ کے صحرائوں اور بلوچستان کے بے آب و گیاہ وادیوں تک مادر وطن کا دفاع کر رہے ہیں۔
26جون1979کی بات ہے کہوٹہ لیبارٹریز کی حفاظت پر مامور آئی ایس آئی کے جوانوں نے علاقے میں دو غیر ملکیوں کو کار میں ادھر اُدھر حرکت کرتے دیکھا وہ اپنے کیمروں سے ارد گرد کے مناظر کی تصویریں لے رہے تھے جوانوں کی چھٹی حس جاگ پڑی چونکہ ان دنوں پاکستانی سائنسدان اور انجینئرز رازدارانہ طور پر ایٹم بم بنانے میں مصروف تھے تاکہ ملکی دفاع مضبوط ہو اور کوئی پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے نہ دیکھ سکے فطرطاً یہ انتہائی حساس معاملہ تھا لہذا جوانوں نے انہیں جا پکڑا پوچھ گچھ پہ انکشاف ہو کہ ان میں سے ایک فرانسیسی سفیر اور ایک فرانسیسی سفارت خانے کا فرسٹ آفیسر نکلا جن کی خدمات سی آئی اے نے حاصل کی تھیں تاکہ کہوٹہ لیبارٹریز کے بارے میں زیادہ سے زیادہ تصویری معلومات حاصل کی جا سکیں یوں آئی ایس آئی نے حاضر دماغی سے کام لیتے ہوئے دشمن کا وہ منصوبہ ناکام بنا دیا ،کسی بھی ملک کی انٹیلی جنس ایجنسی کو تفتیش بارے مکمل اختیارات حاصل ہوتے ہیں اس کو کام سے روکنا ملک دشمنی کے مترادف ہوتا ہے زرداری دور میں دشمن ممالک کے ایجنٹوں کو بے دریغ ویزے جاری کیے گئے جس کی وجہ سے ملک کی حساس تنصیبات پر حملے ہوئے اور دفاع وطن کو نقصان پہنچا پھر آئیایس آئی حرکت میں آئی اور اس نے بلیک واٹر کے اڈوں کو ملک سے صاف کیا موجودہ حکومت کے دور میں را کے بے شمات ایجینٹ پکڑے گئے یہ بھی بغیر ویزوں کے ملک میں دندناتے پھر رہے تھے۔
بھارت کی محبت میں مبتلا حکمران اس بات پر برافروختہ ہیں اور اسی وجہ سے فوج اور ایجنسیوں پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے کیونکہ وہ ان کی پالیسیوں پر چلنے سے انکاری ہیں اس وقت بھی فوج نے اشارہ دیا ہے کہ سپریم کورٹ سے نے والے فیصلے کا احترام کرے گی جبکہ باخبر ذرائع کے مطابق ایک انتہائی اہم عسکری قیادت کو مارشل لا لگانے کی ترغیب دی گئی جس پر انہوں نے وجہ پوچھی تو انہیں بتایا گیا کہ اس طرح ان پر سے نا اہلی کا خطرہ ٹل جائے گا لیکن عسکری شخصیت نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ہم سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کریں گے یہی وجہ ہے کہ اب توپوں کا رخ جے آئی ٹی کی طرف کر دیا گیا ہے فیصلہ جو بھی آئے لیکن جے آئی ٹی کی ٹیم کو سلام پوری قوم نے کیا ہے۔