اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ نے فوجی عدالت سے سزائے موت پانے والے چھ ملزمان کی اپیلوں پرفیصلہ محفوظ کر لیا، عدالت نے کیس کا حتمی فیصلہ جاری ہونے تک ملزمان کی سزاؤں پرعمل درآمد روک دیا ۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے سولہ ملزمان کی اپیلوں کی سماعت کی۔
وکیل صفائی عاصمہ جہانگیر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالت سے پھانسی کی سزا پانے والی ملزم حیدر علی اور قاری زاہد کو شفاف ٹرائل کا حق نہیں دیا گیا ، فوجی عدالت نے فیصلہ بدنیتی اور حقائق کے منافی جاری کیا، فوجی عدالت نے ملزمان کو وکیل کرنے کی اجازت تک نہ دی، کہیں ایسا نہ ہو کہ کل ہم بھی فوجی عدالتوں میں کھڑے ہوں۔ حکومتی وکیل نے کہا کہ ملزم حیدر علی کے کیس میں تمام قانونی تقاضے پورے کیے گئے ہیں اور ٹھوس شواہد کی بنا پر سزائیں سنائی گئی۔
جسٹس شیخ عظمت نے ریمارکس دیئے کہ عدالت نے قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہے ۔ سپریم کورٹ نے فوجی عدالت سے سزا پانے والے مزید چار ملزمان کے ٹرائل کا ریکارڈ طلب کر لیا ۔ عدالت نے ہدایت کی کہ فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے چاروں ملزمان کے ریکارڈ کا جائزہ درخواست گزار لے سکتا ہے ۔ عدالت عظمی نے اٹارنی جنرل دفترمیں ذمہ دار افسرکی موجودگی میں ریکارڈ کا جائزہ لینے کی ہدایت کر دی۔
بعد ازاں سپریم کورٹ میں فوجی عدالت سے سزائے موت پانے والے 6 ملزمان کی اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔ عدالت نے کیس کا حتمی فیصلہ جاری ہونے تک ملزمان کی سزاؤں پر عبوری طور پر عمل درآمد روک دیا ہے۔ ملزم قاری زاہد، فیض زمان خان، قاری زبیر اور حیدر علی پر دہشتگرد تنظیموں سے روابط، ملزم تاج محمد، علی رحمان پر آرمی پبلک سکول پشاور میں سہولت کاری کا الزام ہے۔ فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے دیگر ملزمان کی اپیلوں پر سماعت کل ہو گی۔