اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ نے ماورائے آئین اقدامات اور احتجاجی دھرنوں سے عوامی حقوق متاثر ہونے سے متعلق کیس میں عمران خان اور طاہرالقادری کو نوٹسز جاری کر دیئے۔
جسٹس ثاقب نثار کہتے ہیں عدالت کا دھرنوں کے سیاسی مقاصد سے کوئی لینا دینا نہیں ، عدالت صرف بنیادی حقوق کے معاملے کو دیکھ رہی ہے، کیا آئینی حقوق کی آڑ میں کسی ہجوم کو سپریم کورٹ میں داخلے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ سپریم کورٹ میں ماورائے آئین اقدامات اور احتجاجی دھرنوں سے عوامی حقوق متاثر ہونے سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
چیف جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ احتجاجی دھرنے کے باعث جج صاحبان کو بھی بہت لمبا روٹ لے کر سپریم کورٹ پہنچنا پڑا ، جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ دھرنوں سے آرٹیکل پندرہ اور سولہ کے تحت شہریوں کے آنے جانے کا حق متاثر ہوا۔ عدالت کا دھرنوں کے سیاسی مقاصد سے کوئی لینا دینا نہیں۔
عدالت صرف بنیادی حقوق کے معاملے کو دیکھ رہی ہے ، جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ کیا آئینی حقوق کی آڑ میں کسی ہجوم کو سپریم کورٹ میں داخلے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ دھرنے والے اگر استعفیٰ مانگ رہے ہیں تو اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ حکومت ہٹانے کا طریقہ کار آئین میں موجود ہے۔
حکومت ہٹانے کے لئے آئینی طریقے کے علاوہ حربے انارکی اور لاقانونیت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہر محب وطن شہری کو ذہن میں رکھنا چاہئے کہ ہم ایک وفاق کا حصہ ہے، عدالت نے ملتان ہائیکورٹ بار کی جانب سے دائر درخواست پر عمران خان اور طاہر القادری کو کل کیلئے نوٹس جاری کر دیا، کیس کی سماعت کل ساڑھے نو بجے دوبارہ ہوگی۔